تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، نہ تو غم و پریشانی کے وقت اپنے چہرے کو نوچنا شروع کر دے جو شریعت کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور نہ اس کے متعلق قساوتِ قلبی ہی کا مظاہرہ کرے کہ پریشانی کے اثرات ہی چہرے پر نمایاں نہ ہوں۔ ایسے حالات میں پریشان انسان کو چاہیے کہ پروقار ہو کر اور اطمینان سے بیٹھے اور چہرے پر غمگینی اور پریشانی کے اثرات ہوں تاکہ پتہ چلے کہ واقعی یہ انسان کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہے۔ (فتح الباري: 213/3) (2) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کی طرف ستر (70) قراء بھیجے جو بڑے بہادر اور فاضل تھے، انہیں دھوکے سے شہید کر دیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے مہینہ بھر ان قبائل کے لیے بددعا فرمائی جنہوں نے قراء حضرات کو قتل کیا تھا۔ اس وقت رسول الله ﷺ اس کیفیت سے دوچار ہوئے جس کا حدیث میں ذکر ہے۔