تشریح:
(1) یہ حضرت ام سلیم ؓ کے صبر و استقلال اور ان کی کامل تسلیم و رضا کا نتیجہ تھا کہ اس رات حمل ٹھہرنے سے جو بچہ پیدا ہوا اس کی پشت سے نو بچے حافظ قرآن پیدا ہوئے۔ ان کے علاوہ چار صابرہ شاکرہ بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔ حضرت ابو طلحہ ؓ کے ہاں عبداللہ پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے گھٹی دی تھی۔ اور جو بیٹا فوت ہوا اس کا نام ابو عمیر تھا جس نے اپنے گھر میں ایک سرخ بلبل رکھی ہوئی تھی، جب وہ مر گئی تو رسول اللہ ﷺ اسے مذاق کرتے ہوئے کہتے تھے: ’’اے ابو عمیر! تیری چڑیا کو کیا ہوا؟‘‘ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6129) (2) حضرت ام سلیم ؓ نے اپنے بچے کے متعلق لفظ سکون استعمال فرمایا۔ اس سے مراد سکون نفس، یعنی موت تھی، جبکہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے اس سے نفس سکون مراد لیا کہ بچہ بیماری سے نجات پا کر آرام کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچے کی صورت میں جو انعام دیا وہ صبر کی بدولت تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت کے وقت رنج و غم کا اظہار نہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر معاملات کو اللہ کے حوالے کر دینا عزیمت ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 218/3) (3) قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہمیں اپنا رنج و صدمہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہی پیش کرنا چاہیے۔ حضرات انبیائے ؑ کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اسے قرآن مجید میں "صبر جمیل" سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت یعقوب ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے۔ (سورة یوسف:18/12، 83)