تشریح:
(1) مسجد نبوی کے جنوب میں ایک وسیع میدان تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مختلف مقامات پر نماز عید ادا فرمائی۔ بعض اوقات آپ نے نماز استسقاء بھی اسی میدان میں پڑھی ہے۔ حضرت نجاشی کی نماز جنازہ بھی اسی جگہ ادا کی گئی تھی۔ حد رجم بھی اسی میدان میں قائم کی جاتی تھی۔ کتب حدیث میں لفظ مصلی (عید گاہ) کا اطلاق اسی میدان پر ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسی میدان کو مسلمانوں کا بازار قرار دیا، اسی پس منظر میں یہ جگہ مناخہ کہلاتی کہ یہاں اونٹوں کے تجارتی قافلے پر پڑاؤ ڈالتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے شارح ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسجد نبوی کے متصل جنازہ پڑھنے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔ (فتح الباري: 254/3) امام بخاری ؒ نے عید گاہ کو شرعی طور پر مسجد کے حکم میں رکھا ہے، کیونکہ عید گاہ میں حائضہ عورتیں الگ بیٹھتی تھیں، جس طرح ان کے لیے مسجد میں جانا جائز نہیں تھا، اسی طرح نماز عید پڑھنے کی جگہ سے بھی وہ الگ رہتی تھیں۔ اس بنا پر جب عیدگاہ میں جنازہ جائز ہے تو مسجد میں بھی اسے جائز ہونا چاہیے۔ (2) امام بخاری نے اس سلسلے میں تین احادیث پیش کی ہیں: پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے لیے استغفار کرو۔ دوسری حدیث میں وضاحت کی کہ دعائے استغفار سے مراد نماز جنازہ ہے جو عیدگاہ میں ادا کی گئی۔ تیسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد کے قریب ایک جگہ متعین تھی جہاں زنا کاروں کو رجم بھی کیا جاتا تھا۔ ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جنازہ عیدگاہ میں پڑھا جاتا تھا۔ جب عیدگاہ اور مسجد کا حکم ایک ہے تو مسجد میں جنازہ پڑھنے میں چنداں حرج نہیں، لیکن مسجد میں بوقت ضرورت ادا کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی تھی۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2252 (973)) حضرت عمر ؓ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں پڑھی گئی تھی۔ (الموطأ لإمام مالك:230/1) حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں ادا کی تھی۔ (المصنف لعبد الرزاق: 526/3، حدیث:657) بہتر ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں ادا کی جائے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہوتا تھا، تاہم مسجد میں بھی نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے۔