تشریح:
حضرت یزید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت کی قبر پر جا کر اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:48/4) ایک روایت میں ہے کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے حتی کہ اس عورت کی قبر کے پاس کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے اس طرح صفیں درست کیں، جیسا کہ نماز جنازہ کے لیے صفیں درست کی جاتی ہیں، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:48/4) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دفن کیے جانے کے بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن بعض حضرات کا خیال ہے کہ ایسا کرنا غیر مشروع ہے اور رسول اللہ ﷺ کا قبر پر نماز جنازہ پڑھنا آپ کی خصوصیت ہے، کیونکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ یہ قبریں اہل قبور کے لیے اندھیروں سے بھری ہوئی ہیں اور میری دعا سے ان کی قبروں میں روشنی ہو جاتی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي:46/4) امام ابن حبان نے اس کا جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں پر کوئی انکار نہیں کیا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہیں بلکہ امت کے لیے بھی جائز ہے۔ (صحیح ابن حبان:36/6)