تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر، ابن المنیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جواب کا سوال کے حرف بحرف مطابق ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر سوال میں کسی خاص سبب کا ذکر ہے تو جواب میں بیان کیے گئے حکم کا عام ہونا جائز ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی سائل مفتی سے کسی مخصوص واقعے کے متعلق سوال کرے اور مفتی کو اندیشہ ہو کہ سائل اس جواب سے کوئی غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے تو جواب میں اختصار کا طریقہ اختیار نہ کرے بلکہ ایسی تفصیل پیش کرے جس میں دوسرے معنی کا سدباب ہو جائے جیسا کہ حدیث میں جوتا نہ ملنے کی صورت میں موزے پہننے کا حکم ہے۔ سائل نے آپ سے اختیاری حالت کا سوال کیا تھا آپ نے اضطراری حالت کا حکم بھی بتادیا۔ حالت سفر کے لحاظ سے یہ اضطراری حکم کوئی اجنبی چیز نہیں کیونکہ سفر کی حالت میں ایسی مشکلات پیش آسکتی ہیں نیز ارباب اصول اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ جواب کا سوال کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ اس مطابقت سے یہ مراد نہیں کہ جواب کے ساتھ کسی مفید امر کا اضافہ نہ ہو۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ جواب میں سوال کا پورا پورا حل ہو نا چاہیے۔(فتح الباري: 304/1)
2۔ سوال یہ تھا کہ محرم کے لیے مباح ملبوسات کیا ہیں؟ لیکن جواب میں ان ملبوسات کا ذکر ہے جو محرم کے لیے ناجائز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ممنوع ملبوسات محدود ہیں جبکہ مباح ملبوسات کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر انھیں بیان کیا جاتا تو جواب بھی طویل ہو جاتا، اس کے ساتھ یہ شبہ بھی پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ ملبوسات صرف محرم پہن سکتا ہے غیر محرم کے لیے ان ملبوسات کا استعمال ناجائز ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وہ طریقہ اختیار فرمایا جو آسان تھا اور اس میں کسی قسم کے اشتباہ کا اندیشہ نہیں تھا۔(فتح الباري: 304/1) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ سوال سے زیادہ جواب دیا جا سکتا ہے جبکہ اس کی ضرورت ہو۔ سائل نے اپنے سوال میں اختیاری حالت کا ذکر کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جواب میں اختیاری حالت کے ساتھ ساتھ اضطراری حالت کا بھی ذکر کر دیا کہ دوران سفر میں جوتے نہ مل سکیں تو ننگے پاؤں چلنے کے بجائے موزے پہن لیے جائیں۔ اس میں سائل کو تنبیہ بھی ہے کہ تمھیں ان پابندیوں کے متعلق سوال کرنا چاہیے تھا جو احرام کی وجہ سے محرم پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے۔1۔سلا ہوا کپڑا استعمال نہ کیا جائے۔ 2۔اپنے سرکوکھلا رکھا جائے۔ 3۔ خوشبو استعمال نہ کی جائے۔ اس حکم میں مرد عورتیں تمام شامل ہیں۔ 4۔ پاؤں میں کھلا جوتا پہنا جائے۔ دیگر مسائل و احکام کتاب الحج میں بیان کیے جائیں گے۔
3۔ حدیث میں مطلق طور پر رنگین کپڑوں کی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ’’امام تدبر‘‘ نے سمجھا ہے بلکہ صرف ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں خوشبودار ہیں۔ اگرانھیں اچھی طرح دھو کر خوشبو کے اثرات زائل کر دیے جائیں تو ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ آخر میں ’’امام تدبر‘‘ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض جڑ دیا ہے کہ ’’امام صاحب کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب سائل کے سوال کی ضرورت سے زائد دیا ہےحالانکہ یہ بات درست نہیں۔‘‘( تدبر حدیث: 234/1) یہ اعتراض بھی اصلاحی صاحب کا خود ان کی اپنی نافہمی یا پندار علم کا نتیجہ ہے ورنہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی زیر نظر حدیث پر تبویب روز روشن کی طرح واضح ہے
ع،دیدہ کو رکو کیاآئے نظر، کیا دیکھے؟