تشریح:
(1) قرآن کریم میں اسلام لانے کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کرنے والوں کو بڑی سخت وعید سنائی گئی ہے، لیکن ایک گروہ کو اس وعید سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا ﴿٩٨﴾ ﴿فَأُولَـٰئِكَ عَسَى اللَّـهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَفُوًّا غَفُورًا ﴿٩٩﴾) (النسآء:99،98:4) ’’مگر جو مرد، عورتیں اور بچے فی الواقع کمزور اور بےبس ہیں اور وہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور راہ نہیں پاتے امید ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو معاف فرما دے کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا نہایت بخشنے والا ہے۔‘‘ (2) حدیث میں ناتواں لوگوں سے مراد وہی ہیں جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس ؓ اپنی والدہ لبابہ بنت حارث ؓ کے ساتھ کمزور مسلمانوں میں سے تھے جو مکہ میں مسلمان تو ہو گئے تھے، لیکن مشرکین نے انہیں ہجرت سے روک دیا تھا، ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں بچہ خیرالابوین کے تابع ہوتا ہے، کیونکہ حضرت عباس ؓ تو غزوہ بدر کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ چونکہ اسلام بلند رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا، اس لیے غیر مکلف بچہ جب مسلمان ہو جائے تو اس کا اسلام صحیح ہے اور اسی حالت میں اگر اسے موت آ جائے تو اسلام کی برکت سے اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے یہی مقصود ہے۔ والله أعلم۔