Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The funeral Salat (prayer) of a martyr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1357.
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پر نماز پڑھی جس طرح اموات پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، پھر منبر کی طرف لوٹے اورفرمایا:’’میں تمھارا میرکاروں اور تم پر گواہ ہوں۔ اللہ کی قسم!میں اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین یا زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم ! میں اپنے بعد تمھارے متعلق شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے شہید کی نماز جنازہ کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں دیا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرح کی احادیث پیش کر کے انہوں نے یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ حدیث جابر سے نفی اور حدیث عقبہ بن عامر سے اثبات معلوم ہوتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالبا امام بخاری ؒ شہید کے دفن ہونے کے بعد اس کی قبر پر نماز جنازہ کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ شہدائے اُحد کے دفن ہو جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ہے، دفن ہونے سے قبل نہیں پڑھی۔ اس طرح دونوں احادیث کے ظاہر پر عمل ممکن ہے۔ (فتح الباري:267/3) ہمارے نزدیک معرکے میں شہید ہونے والے کی نماز جنازہ عام انسان کی طرح واجب نہیں بلکہ جائز ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ ایک تو مذکورہ حدیث جسے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ نے شہدائے اُحد پر اس طرح نماز پڑھی۔ جیسا کہ میت پر پڑھی جاتی ہے۔ ٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کے پاس سے گزرے جن کا مثلہ کر دیا گیا تھا اور آپ نے شہدائے اُحد میں سے حضرت حمزہ ؓ کے علاوہ کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3137) حضرت شداد بن ہاد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شہید کو اپنے جبے میں کفن دیا، پھر اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1955) ان احادیث کے مقابلے میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہدائے اُحد کو ان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا کم دیا اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (4) ان احادیث کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے میں انسان کو اختیار ہے، لیکن زیادہ بہتر پڑھنا ہی ہے، کیونکہ دعا اور عبادت اجروثواب میں اضافے کا باعث ہے، البتہ شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا اس کے متعلق خیر القرون میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر طیار ؓ مدینہ منورہ سے باہر جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع دی گئی، لیکن آپ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا ہو۔ ہمارے ہاں بڑی دھوم دھام سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا رواج چل نکلا ہے اور اس کے لیے مندرجہ ذیل امور کی بجا آوری کو بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے: ٭ شہید کی غائبانہ نماز جنازہ کے لیے بڑے بڑے اشتہارات شائع کر کے درودیوار پر لگائے جاتے ہیں۔ ٭ مساجد اور دینی مراکز میں اس کے متعلق اعلانات کیے جاتے ہیں۔ ٭ کسی قد آور شخصیت کو غائبانہ نماز جنازہ کی امامت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ٭ علاقہ بھر سے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ ٭ خواتین کو وہاں لے جانے کے لیے بسوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٭ اس تقریب میں تقاریر کے لیے مقررین کو دعوت دی جاتی ہے۔ ٭ لوہا خوب گرم کرنے کے بعد خواتین و حضرات سے چندے کی بھرپور اپیل کی جاتی ہے۔ ٭ آخر میں جلدی سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر عوام کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اس انداز سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق وہ حضرات خود بھی مطمئن نہیں ہیں اور انہیں اس کے متعلق شرح صدر نہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک مذکورہ بالا انداز سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا محل نظر ہے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1307
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1344
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1344
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1344
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پر نماز پڑھی جس طرح اموات پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، پھر منبر کی طرف لوٹے اورفرمایا:’’میں تمھارا میرکاروں اور تم پر گواہ ہوں۔ اللہ کی قسم!میں اب اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین یا زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم ! میں اپنے بعد تمھارے متعلق شرک میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ تم دنیا میں رغبت رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے شہید کی نماز جنازہ کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں دیا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرح کی احادیث پیش کر کے انہوں نے یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ حدیث جابر سے نفی اور حدیث عقبہ بن عامر سے اثبات معلوم ہوتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالبا امام بخاری ؒ شہید کے دفن ہونے کے بعد اس کی قبر پر نماز جنازہ کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ شہدائے اُحد کے دفن ہو جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ہے، دفن ہونے سے قبل نہیں پڑھی۔ اس طرح دونوں احادیث کے ظاہر پر عمل ممکن ہے۔ (فتح الباري:267/3) ہمارے نزدیک معرکے میں شہید ہونے والے کی نماز جنازہ عام انسان کی طرح واجب نہیں بلکہ جائز ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ ایک تو مذکورہ حدیث جسے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ نے شہدائے اُحد پر اس طرح نماز پڑھی۔ جیسا کہ میت پر پڑھی جاتی ہے۔ ٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کے پاس سے گزرے جن کا مثلہ کر دیا گیا تھا اور آپ نے شہدائے اُحد میں سے حضرت حمزہ ؓ کے علاوہ کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3137) حضرت شداد بن ہاد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شہید کو اپنے جبے میں کفن دیا، پھر اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1955) ان احادیث کے مقابلے میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہدائے اُحد کو ان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا کم دیا اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (4) ان احادیث کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے میں انسان کو اختیار ہے، لیکن زیادہ بہتر پڑھنا ہی ہے، کیونکہ دعا اور عبادت اجروثواب میں اضافے کا باعث ہے، البتہ شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا اس کے متعلق خیر القرون میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر طیار ؓ مدینہ منورہ سے باہر جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع دی گئی، لیکن آپ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا ہو۔ ہمارے ہاں بڑی دھوم دھام سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا رواج چل نکلا ہے اور اس کے لیے مندرجہ ذیل امور کی بجا آوری کو بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے: ٭ شہید کی غائبانہ نماز جنازہ کے لیے بڑے بڑے اشتہارات شائع کر کے درودیوار پر لگائے جاتے ہیں۔ ٭ مساجد اور دینی مراکز میں اس کے متعلق اعلانات کیے جاتے ہیں۔ ٭ کسی قد آور شخصیت کو غائبانہ نماز جنازہ کی امامت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ٭ علاقہ بھر سے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ ٭ خواتین کو وہاں لے جانے کے لیے بسوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٭ اس تقریب میں تقاریر کے لیے مقررین کو دعوت دی جاتی ہے۔ ٭ لوہا خوب گرم کرنے کے بعد خواتین و حضرات سے چندے کی بھرپور اپیل کی جاتی ہے۔ ٭ آخر میں جلدی سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر عوام کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اس انداز سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق وہ حضرات خود بھی مطمئن نہیں ہیں اور انہیں اس کے متعلق شرح صدر نہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک مذکورہ بالا انداز سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا محل نظر ہے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے یزیدبن ابی حبیب نے بیان کیا‘ ان سے ابوالخیر یزیدبن عبداللہ نے‘ ان سے عقبہ بن عامرنے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جاکر تمہارے لیے میر سامان بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم خدا کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کروگے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ ( نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤ گے )
حدیث حاشیہ:
شہید فی سبیل اللہ جو میدان جنگ میں مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی باب کے ذیل میں ہر دو احادیث میں یہ اختلاف موجود ہے۔ ان میں تطبیق یہ ہے کہ دوسری حدیث جس میں شہدائے احد پر نماز کا ذکر ہے اس سے مراد صرف دعا اور استغفار ہے۔ امام شافعی ؒ کہتے ہیں: کأنه صلی اللہ علیه وسلم دعا لهم واستغفرلهم حین قرب أجله بعد ثمان سنین کالمودع للأحیاء والأموات۔( تحفة الأحوذي)یعنی اس حدیث میں جو ذکر ہے یہ معرکہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔ یعنی آنحضرت ﷺ اپنے آخری وقت میں شہدائے احد سے بھی رخصت ہونے کے لیے وہاں گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ طویل بحث کے بعد المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں۔ قلت الظاهر عندي أن الصلوٰة علی الشهید لیست بواجبة فیجوز أن یصلی علیها ویجوز ترکها واللہ أعلم۔یعنی میرے نزدیک شہید پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا ہر دو امور جائز ہیں۔واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqba bin 'Amir (RA): One day the Prophet (ﷺ) went out and offered the funeral prayers of the martyrs of Uhud and then went up the pulpit and said, "I will pave the way for you as your predecessor and will be a witness on you. By Allah! I see my Fount (Kauthar) just now and I have been given the keys of all the treasures of the earth (or the keys of the earth). By Allah! I am not afraid that you will worship others along with Allah after my death, but I am afraid that you will fight with one another for the worldly things." ________