تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر کے پاس وعظ و نصیحت کی مجلس قائم کی جا سکتی ہے اور ایسا کرنا اذکار و عبادات کے حکم میں نہیں جو کہ قبر کے پاس مکروہ ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص قبر کے پاس جا کر بیٹھے تو اسے انذار و تحذیر کی باتیں کرنی چاہئیں، کیونکہ قبرونشر بالکل قریب ہے، اس کی تیاری میں مصروف رہنا چاہیے۔ (2) یہ حدیث اثبات تقدیر کے لیے ایک عظیم دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ ہم چونکہ اللہ کے بندے ہیں، لہذا بندگی اور اس کے احکام کی بجا آوری ہمارا کام ہونا چاہیے۔ اللہ کی تقدیر کا ہمیں علم نہیں کہ اس کے سہارے عمل ترک کر دیا جائے، پھر عمل کو چھوڑا بھی کیسے جا سکتا ہے؟ کیونکہ اچھے اور برے اعمال تو طے شدہ ہیں اور انجام کا مدار انہی اعمال پر ہے۔ (3) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے توکل کرتے ہوئے ترک عمل کا سوال کرنے والوں کو بطور اسلوب حکیم جواب دیا ہے کہ وہ اس خیال کر ترک کر کے اپنی عبودیت اور بندگی بجا لانے کا راستہ اختیار کریں اور امور الٰہیہ میں تصرف و دخل اندازی کا راستہ اختیار نہ کریں، اسی طرح عبادت اور ترک عبادت کو دخول جنت اور ورود جہنم کا مستقل سبب خیال نہ کریں بلکہ انہیں صرف علامات کے طور پر اختیار کریں، یعنی عبادات اور نیک اعمال اختیار کرنے والے جنت کے راستے پر گامزن ہیں اور بے عمل و بدکردار جہنم کی سمت چل رہے ہیں۔ (فتح الباري:288/3) تقدیر کے متعلق مکمل مباحث کتاب القدر (حدیث: 6605) کے فوائد میں بیان ہوں گے۔ بإذن الله۔