Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The placing of Idhkhir and grass in the grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1362.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام قراردیا ہے۔ مجھ سے پہلے بھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی دن کے کچھ حصے میں حلال کیا گیا تھا ،اس بنا پر نہ تو اس کی تازہ گھاس کو اکھاڑاجائے اور نہ اس کے درخت ہی کاٹے جائیں، نیز اس کے شکار کو بھی خوفزدہ نہ کیا جائے اور نہ اس کی گری پڑی چیز ہی کو اٹھایا جائے، ہاں ! اس کے متعلق اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔‘‘ اس پر حضرت عباس ؓ نے عرض کیا کہ اذخر گھاس تو ہمارے زرگروں اور ہماری قبروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا:’’ہاں !اذخر گھاس (اس سے مستثنیٰ ہے)۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’خشک گھاس ہماری قبروں اور ہمارے گھرکے لیے ہے۔‘‘ حضرت صفیہ بنت شیبہ ؓ فرماتی ہیں۔ میں نے نبی ﷺ سے اسی طرح سناہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بروایت مجاہد یہ الفاظ منقول ہیں کہ خشک گھاس ان کے لوہاروں اور گھروں کے لیے ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ اذخر اور خشک گھاس کو قبر میں بچھایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ حدیث میں ایک خاص گھاس اذخر کا ذکر ہے، تاہم دیگر خشک گھاس کی اقسام کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اذخر کی تخصیص اس لیے ہے کہ سرزمین حجاز میں یہی بکثرت پائی جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر آگ جلانے کے لیے یہ گھاس استعمال ہوتی تھی، نیز گھروں اور قبروں میں بچھانے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا، اس لیے سرزمین حرم میں خود بخود اُگنے والی اس گھاس کو کاٹنے کی اجازت دی گئی۔ (2) قین سے مراد کاریگر ہے۔ اس میں زرگر اور لوہار دونوں آ جاتے ہیں۔ (3) امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو خود متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:112) اسی طرح صفیہ بنت شیبہ کی روایت سنن ابن ماجہ میں متصل سند سے ذکر کی گئی ہے۔ (سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:3109) حضرت مجاہد کی روایت کو بھی امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، جزاءالصید، حدیث:1834) (4) حافظ ابن حجر ؒ نے ان روایات کو ذکر کرنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امام بخاری حضرت عکرمہ کی روایت کو ترجیح دینا چاہتے ہیں، کیونکہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت صفیہ ؓ کی بیان کردہ روایت بھی اس کے ہم آہنگ ہے۔ (فتح الباري:273/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1312
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1349
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1349
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1349
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو حرام قراردیا ہے۔ مجھ سے پہلے بھی کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی دن کے کچھ حصے میں حلال کیا گیا تھا ،اس بنا پر نہ تو اس کی تازہ گھاس کو اکھاڑاجائے اور نہ اس کے درخت ہی کاٹے جائیں، نیز اس کے شکار کو بھی خوفزدہ نہ کیا جائے اور نہ اس کی گری پڑی چیز ہی کو اٹھایا جائے، ہاں ! اس کے متعلق اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔‘‘ اس پر حضرت عباس ؓ نے عرض کیا کہ اذخر گھاس تو ہمارے زرگروں اور ہماری قبروں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا:’’ہاں !اذخر گھاس (اس سے مستثنیٰ ہے)۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’خشک گھاس ہماری قبروں اور ہمارے گھرکے لیے ہے۔‘‘ حضرت صفیہ بنت شیبہ ؓ فرماتی ہیں۔ میں نے نبی ﷺ سے اسی طرح سناہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے بروایت مجاہد یہ الفاظ منقول ہیں کہ خشک گھاس ان کے لوہاروں اور گھروں کے لیے ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ اذخر اور خشک گھاس کو قبر میں بچھایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ حدیث میں ایک خاص گھاس اذخر کا ذکر ہے، تاہم دیگر خشک گھاس کی اقسام کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اذخر کی تخصیص اس لیے ہے کہ سرزمین حجاز میں یہی بکثرت پائی جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر آگ جلانے کے لیے یہ گھاس استعمال ہوتی تھی، نیز گھروں اور قبروں میں بچھانے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا، اس لیے سرزمین حرم میں خود بخود اُگنے والی اس گھاس کو کاٹنے کی اجازت دی گئی۔ (2) قین سے مراد کاریگر ہے۔ اس میں زرگر اور لوہار دونوں آ جاتے ہیں۔ (3) امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو خود متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:112) اسی طرح صفیہ بنت شیبہ کی روایت سنن ابن ماجہ میں متصل سند سے ذکر کی گئی ہے۔ (سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث:3109) حضرت مجاہد کی روایت کو بھی امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، جزاءالصید، حدیث:1834) (4) حافظ ابن حجر ؒ نے ان روایات کو ذکر کرنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امام بخاری حضرت عکرمہ کی روایت کو ترجیح دینا چاہتے ہیں، کیونکہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت صفیہ ؓ کی بیان کردہ روایت بھی اس کے ہم آہنگ ہے۔ (فتح الباري:273/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا۔ کہا ہم سے خالد حذاءنے‘ ان سے عکرمہ نے‘ ان سے ابن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے ( یہاں قتل وخون ) حلال تھا اور نہ میرے بعد ہوگا اور میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے ( فتح مکہ کے دن ) حلال ہوا تھا۔ پس نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے نہ اس کے درخت قلم کئے جائیں۔ نہ یہاں کے جانوروں کو ( شکار کے لیے ) بھگایا جائے اور سوا اس شخص کے جو اعلان کرنا چاہتا ہو ( کہ یہ گری ہوئی چیز کس کی ہے ) کسی کے لیے وہاں سے کوئی گری ہوئی چیز اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر حضرت عباس ؓ نے کہا ’’لیکن اس سے اذخر کا استثناء کردیجئے کہ یہ ہمارے سناروں کے اور ہماری قبروں میں کام آتی ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مگر اذخر کی اجازت ہے۔ ابوہریرہ ؓ کی نبی کریم ﷺ سے روایت میں ہے۔ ’’ہماری قبروں اور گھروں کے لیے۔‘‘ اور ابان بن صالح نے بیان کیا‘ ان سے حسن بن مسلم نے‘ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح سنا تھا۔ اور مجاہد نے طاؤس کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ابن عباس ؓ نے یہ الفاظ بیان کئے۔ ہمارے قین ( لوہاروں ) اور گھروں کے لیے ( اذخراکھاڑنا حرم سے ) جائز کردیجئے۔
حدیث حاشیہ:
پس آپ نے اذخرنامی گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔ تشریح : اس حدیث سے جہاں قبر میں اذخر یا کسی سوکھی گھاس کا ڈالنا ثابت ہوا۔ وہاں حرم مکۃ المکرمہ کا بھی اثبات ہوا۔ اللہ نے شہر مکہ کو امن والا شہر فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اسے بلد امین کہا گیا ہے۔ یعنی وہ شہر جہاں امن ہی امن ہے‘ وہاں نہ کسی کا قتل جائز ہے نہ کسی جانور کا مارنا جائز حتیٰ کہ وہاں کی گھاس تک بھی اکھاڑنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ امن والا شہر ہے جسے خدا نے روز ازل ہی سے بلد الامین قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Allah has made Makkah a sanctuary (sacred place) and it was a sanctuary before me and will be so after me. It was made legal for me (to fight in it) for a few hours of the day. None is allowed to uproot its thorny shrubs or to cut its trees or to chase its game or to pick up its fallen things except by a person who announces it publicly." On that Al-Abbas said (to the Prophet), "Except Al-Idhkhir for our goldsmiths and for our graves." And so the Prophet (ﷺ) added, "Except Al-Idhkhir. " And Abu Hurairah (RA) narrated that the Prophet (ﷺ) said, "Except Al-Idhkhir for our graves and houses." And Ibn Abbas (RA) said, "For their goldsmiths and houses." ________