قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجَنَائِزِ (بَابُ مَوْعِظَةِ المُحَدِّثِ عِنْدَ القَبْرِ، وَقُعُودِ أَصْحَابِهِ حَوْلَهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {يَخْرُجُونَ مِنَ الأَجْدَاثِ} [القمر: 7] الأَجْدَاثُ: القُبُورُ، {بُعْثِرَتْ} [الانفطار: 4]: أُثِيرَتْ، بَعْثَرْتُ حَوْضِي: أَيْ جَعَلْتُ أَسْفَلَهُ أَعْلاَهُ، الإِيفَاضُ: الإِسْرَاعُ وَقَرَأَ الأَعْمَشُ: (إِلَى نَصْبٍ): إِلَى شَيْءٍ مَنْصُوبٍ يَسْتَبِقُونَ إِلَيْهِ " وَالنُّصْبُ وَاحِدٌ، وَالنَّصْبُ مَصْدَرٌ {يَوْمُ الخُرُوجِ} [ق: 42]: مِنَ القُبُورِ {يَنْسِلُونَ} [الأنبياء: 96]: يَخْرُجُونَ "

1362. حَدَّثَنَا عُثْمَانُ قَالَ حَدَّثَنِي جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ فَأَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَنَكَّسَ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِمِخْصَرَتِهِ ثُمَّ قَالَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كُتِبَ مَكَانُهَا مِنْ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَإِلَّا قَدْ كُتِبَ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ قَالَ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى الْآيَةَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

سورۃ القمر میں آیت «يخرجون من الأجداث‏» میں «أجداث» سے قبریں مراد ہیں۔ اور سورۃ انفطار میں «بعثرت‏» کے معنے اٹھائے جانے کے ہیں۔ عربوں کے قول میں «بعثرت حوضي» کا مطلب یہ کہ حوض کا نچلا حصہ اوپر کر دیا۔ «إيفاض» کے معنے جلدی کرنا۔ اور اعمش کی قرآت میں «إلى نصب‏» ( «بفتح نون») ہے یعنی ایک «شىء منصوب» کی طرف تیزی سے دوڑے جا رہے ہیں تاکہ اس سے آگے بڑھ جائیں۔ «نصب‏» ( «بضم نون») واحد ہے اور «نصيب» ( «بفتح نون») مصدر ہے اور سورۃ ق میں «يوم الخروج» سے مراد مردوں کا قبروں سے نکلنا ہے۔ اور سورۃ انبیاء میں «ينسلون» «يخرجون» کے معنے میں ہے۔

1362.

حضرت علی ؓ  سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا:ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے قریب تشریف لاکر بیٹھ گئے اور ہم لوگ بھی آپ کے گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے اپنا سر جھکا لیا اور چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی ایسا جاندار نہیں جس کی جگہ جنت یا دوزخ میں نہ لکھی گئی ہو اور ہرشخص کا نیک بخت یا بدنصیب ہونابھی لکھا گیا ہے۔‘‘ اس پر ایک شخص نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ ! پھر ہم اس نوشتے(لکھے ہوئے) پر اعتماد کرکے عمل چھوڑ نہ دیں، کیونکہ ہم میں سے جو شخص خوش نصیب ہوگا وہ اہل سعادت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا اور جو شخص بدبخت ہوگا وہ اہل شقاوت کے عمل کی طرف رجوع کرے گا۔آپ نے فرمایا:’’سعید کو عمل سعادت کی توفیق دی جاتی ہے۔ اور شقی کے لیے عمل شقاوت آسان کردیا جاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’پھر جو شخص صدقہ دے گا اور پرہیز گاری اختیار کرے گا، نیز عمدہ بات کی تصدیق کرے گا(تو ہم اسے ضرور آسانی (عمل سعادت) کی توفیق دیں گے)۔‘‘