Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To seek refuge from the punishment in the grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1390.
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے:’’اے اللہ!میں عذاب قبر سے اور عذاب جہنم سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اورمسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت جتنی بھی احادیث بیان کی ہیں، ان کا تعلق عنوان سابق سے تھا، لیکن انہیں الگ عنوان دے کر بیان کیا گیا ہے، کیونکہ پہلا عنوان تو ان لوگوں کی تردید کے لیے تھا جو عذاب قبر کے منکر تھے اور مذکورہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ ایسے موقع پر ہمیں اللہ کی پناہ لینی چاہیے اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے سوا اور کوئی بھی عذاب قبر سے نجات نہیں دے سکتا۔ (فتح الباري:306/3) (2) عذاب قبر کے ساتھ فتنہ دجال کو ملحق کیا ہے، کیونکہ فتنہ دجال اس قدر سنگین ہو گا کہ اس کا اثر قبور تک بھی پہنچے گا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ابتلا ان معاصی کے آثار میں سے ہو گا جو دنیا میں کیے تھے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عذاب قبر اور فتنہ دجال سے پناہ مانگنا امت کی تعلیم کے لیے ہے وگرنہ آپ عذاب قبر سے محفوظ اور فتنہ دجال سے مامون ہیں۔ صلی اللہ علیه وسلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1338
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1377
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1377
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1377
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے:’’اے اللہ!میں عذاب قبر سے اور عذاب جہنم سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اورمسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت جتنی بھی احادیث بیان کی ہیں، ان کا تعلق عنوان سابق سے تھا، لیکن انہیں الگ عنوان دے کر بیان کیا گیا ہے، کیونکہ پہلا عنوان تو ان لوگوں کی تردید کے لیے تھا جو عذاب قبر کے منکر تھے اور مذکورہ عنوان اس لیے قائم کیا ہے کہ ایسے موقع پر ہمیں اللہ کی پناہ لینی چاہیے اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے سوا اور کوئی بھی عذاب قبر سے نجات نہیں دے سکتا۔ (فتح الباري:306/3) (2) عذاب قبر کے ساتھ فتنہ دجال کو ملحق کیا ہے، کیونکہ فتنہ دجال اس قدر سنگین ہو گا کہ اس کا اثر قبور تک بھی پہنچے گا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ابتلا ان معاصی کے آثار میں سے ہو گا جو دنیا میں کیے تھے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عذاب قبر اور فتنہ دجال سے پناہ مانگنا امت کی تعلیم کے لیے ہے وگرنہ آپ عذاب قبر سے محفوظ اور فتنہ دجال سے مامون ہیں۔ صلی اللہ علیه وسلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیاکہ رسول اللہ ﷺ اس طرح دعا کرتے تھے ’’اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتاہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
عذاب قبر کے بارے میں علامہ شیخ سفارینی الاثری ؒ اپنی مشہور کتاب لوامع أنوار البهیة میں فرماتے ہیں۔ (وَمِنْهَا) أَيِ الْأُمُورِ الَّتِي يَجِبُ الْإِيمَانُ بِهَا وَأَنَّهَا حَقٌّ لَا تُرَدُّ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَ الْحَافِظُ جَلَالُ الدِّينِالسُّيُوطِيُّ فِي كِتَابِهِ " شَرْحُ الصُّدُورِ فِي أَحْوَالِ الْمَوْتَى وَالْقُبُورِ " وَقَدْ ذَكَرَ اللَّهُ عَذَابَ الْقَبْرِ فِي الْقُرْآنِ فِي عِدَّةِ أَمَاكِنَ كَمَا بَيَّنْتُهُ فِي الْإِكْلِيلِ فِي أَسْرَارِ التَّنْزِيلِ. انْتَهَى.قَالَ الْحَافِظُ ابْنُ رَجَبٍ فِي كِتَابِهِ أَهْوَالِ الْقُبُورِ فِي«قَوْلِهِ تَعَالَى: {فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ} [الواقعة: 83]- إِلَى قَوْلِهِ - {إِنَّ هَذَا لَهُوَ حَقُّ الْيَقِينِ} [الواقعة: 95]عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَاتِ فَقَالَ: " إِذَا كَانَ عِنْدَ الْمَوْتِ قِيلَ لَهُ هَذَا، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْيَمِينِ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَأَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشِّمَالِ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَكَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ» ". وَأَخْرَجَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " «مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ " فَأَكَبَّ الْقَوْمُ يَبْكُونَ قَالَ " مَا يُبْكِيكُمْ؟ " قَالُوا إِنَّا نَكْرَهُ الْمَوْتَ قَالَ لَيْسَ ذَلِكَ وَلَكِنَّهُ إِذَا حَضَرَ فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ، فَإِذَا بُشِّرَ بِذَلِكَ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَاللَّهُ لِلِقَائِهِ أَحَبُّ، وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ وَتَصْلِيَةُ جَحِيمٍ، فَإِذَا بُشِّرَ بِذَلِكَ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ وَاللَّهُ لِلِقَائِهِ أَكْرَهُ» ". وَقَالَ الْإِمَامُ الْمُحَقِّقُ ابْنُ الْقَيِّمِ فِي كِتَابِ الرُّوحِ قَوْلُ السَّائِلِ مَا الْحِكْمَةُ فِي أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ لَمْ يُذْكَرْ فِي الْقُرْآنِ صَرِيحًا مَعَ شِدَّةِ الْحَاجَةِ إِلَى مَعْرِفَتِهِ وَالْإِيمَانِ بِهِ لِيَحْذَرَهُ النَّاسُ وَيُتَّقَى؟ فَأَجَابَ عَنْ ذَلِكَ بِوَجْهَيْنِ مُجْمَلٍ وَمُفَصَّلٍ أَمَّا الْمُجْمَلُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَنْزَلَ عَلَى رَسُولِهِ وَحْيَيْنِ فَأَوْجَبَ عَلَى عِبَادِهِ الْإِيمَانَ بِهِمَا وَالْعَمَلَ بِمَا فِيهِمَا وَهُمَا الْكِتَابُ وَالْحِكْمَةُ قَالَ تَعَالَى{وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ} [النساء: 113] وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى {هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ} [الجمعة: 2]- إِلَى قَوْلِهِ -{وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ} [الجمعة: 2]وَقَالَ تَعَالَى {وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ} [الأحزاب: 34]الْآيَةَ وَالْحِكْمَةُ هِيَ السُّنَّةُ بِاتِّفَاقِ السَّلَفِ، وَمَا أَخْبَرَ بِهِ الرسول عن اللہ فَهُوَ فِي وُجُوبِ تَصْدِيقِهِ وَالْإِيمَانِ بِهِ كَمَا أَخْبَرَ بِهِ الرَّبُّ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ، فَهَذَا أَصْلٌ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ بَيْنَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا يُنْكِرُهُ إِلَّا مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ،وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " «إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ» ".قَالَ الْمُحَقِّقُ: وَأَمَّا الْجَوَابُ الْمُفَصَّلُ فَهُوَ أَنَّ نَعِيمَ الْبَرْزَخِ وَعَذَابَهُ مَذْكُورٌ فِي الْقُرْآنِ فِي مَوَاضِعَ (مِنْهَا) قَوْلُهُ تَعَالَى{وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ} [الأنعام: 93]الْآيَةَ وَهَذَا خِطَابٌ لَهُمْ عِنْدَ الْمَوْتِ قَطْعًا وَقَدْ أَخْبَرَتِ الْمَلَائِكَةُ وَهُمُ الصَّادِقُونَ أَنَّهُمْ حِينَئِذٍ يُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ، وَلَوْ تَأَخَّرَ عَنْهُمْ ذَلِكَ إِلَى انْقِضَاءِ الدُّنْيَا لَمَا صَحَّ أَنْ يُقَالَ لَهُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى{فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا} [غافر: 45]-إِلَى قَوْلِهِ -{يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا} [غافر: 46]الْآيَةَ فَذَكَرَ عَذَابَ الدَّارَيْنِ صَرِيحًا لَا يُحْتَمَلُ غَيْرُهُ. وَمِنْهَا قَوْلُهُ تَعَالَى{فَذَرْهُمْ حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ يَوْمَ لَا يُغْنِي عَنْهُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ} [الطور: 45]انْتَهَى كَلَامُهُ. وَأَخْرَجَ الْبُخَارِيُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ» "وَأَخْرَجَ التِّرْمِذِيُّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: مَا زِلْنَا فِي شَكٍّ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ حَتَّى نَزَلَتْ{أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ} [التكاثر: 1] .وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذَا مَاتَ الْكَافِرُ أُجْلِسَ فِي قَبْرِهِ فَيُقَالُ لَهُ مَنْ رَبُّكَ وَمَا دِينُكَ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي فَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ - ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ" فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا "قَالَ الْمَعِيشَةُ الضَّنْكُ هِيَ عَذَابُ الْقَبْرِ. وَقَالَ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى" {عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ} [الطور: 47] "قَالَ عَذَابَ الْقَبْرِ. وَرُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالَى{وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ} [السجدة: 21](قَالَ عَذَابُ الْقَبْرِ). وَكَذَا قَالَ قَتَادَةُ وَالرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى" سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ": إِحْدَاهُمَا فِي الدُّنْيَا وَالْأُخْرَى عَذَابُ الْقَبْرِ. اس طویل عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب قبر حق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ تفصیلی ذکر حافظ جلال الدین سیوطی ؒ کی کتاب ''شرح الصدور'' اور ''اکلیل في أسرار التنزیل'' میں موجود ہے۔ حافظ ابن رجب نے اپنی کتاب ''أحوال القبور'' میں آیت شریفہ: {فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ}(الواقعة: 83) کی تفسیر میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کو تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ جب موت کا وقت آتا ہے تو مرنے والے سے یہ کہا جاتا ہے۔ پس اگر وہ مرنے والا دائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اگر وہ مرنے والا بائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے اور اللہ پاک اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔ اور علامہ محقق امام ابن قیم ؒ نے کتاب الروح میں لکھا ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ اس امر میں کیا حکمت ہے کہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ ضروری تھا کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اس سے ڈر پیدا ہو۔ حضرت علامہ نے اس کا جواب مجمل اور مفصل ہردو طور پر دیا۔ مجمل تو یہ دیا کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ پر دو قسم کی وحی نازل کی ہے اور ان دونوں پر ایمان لانا اور ان دونوں پر عمل کرنا واجب قرار دیا ہے اور وہ کتاب اور حکمت ہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات میں موجود ہے اور سلف صالحین سے متفقہ طور پر حکمت سے سنت (حدیث نبوی) مراد ہے اب عذاب قبر کی خبر اللہ کے رسول ﷺ نے صحیح احادیث میں دی ہے۔ پس وہ خبر یقینا اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کی تصدیق واجب ہے اور جس پر ایمان رکھنا فرض ہے۔ ( جیسا کہ رب تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان حقیقت ترجمان سے صحیح احادیث میں عذاب قبر کے متعلق بیان کرایا ہے ) پس یہ اصول اہل اسلام میں متفقہ ہے اس کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو اہل اسلام سے باہر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خبردار رہو کہ میں قرآن مجید دیا گیا ہوں اور اس کی مثال ایک اور کتاب ( حدیث ) بھی دیا گیا ہوں۔ پھر محقق علامہ ابن قیم نے تفصیلی جواب میں فرمایا کہ برزخ کا عذاب قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ثابت ہے اور برزخ کی بہت سی نعمتوں کا بھی قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ ( یہی عذاب وثواب قبر ہے ) ان آیات میں سے ایک آیت {وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ}(الأنعام:93) بھی ہے ( جس میں ذکر ہے کہ اگر تو ظالموں کو موت کی بے ہوشی کے عالم میں دیکھے ) ان کے لیے موت کے وقت یہ خطاب قطعی ہے اور اس موقع پر فرشتوں نے خبردی ہے جو بالکل سچے ہیں کہ ان کافروں کو اس دن رسوائی کا عذاب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب تمہارے لیے اس وجہ سے ہے کہ تم اللہ پر ناحق جھوٹی باتیں باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔ یہاں اگر عذاب کو دنیا کے خاتمہ پر مؤخر مانا جائے تو یہ صحیح نہیں ہوگا یہاں تو ’’آج کا دن‘‘ استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم کو آج کے دن رسوائی کا عذاب ہوگا۔ اس آج کے دن سے یقینا قبر کے عذاب کا دن مراد ہے۔ اور دوسری آیت میں یوں مذکور ہے کہ {وَحَاقَ بِاٰلِ فِرعَونَ سُوئُ العَذَابِ o {يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا}(المؤمن: 45,46) یعنی فرعونیوں کو سخت ترین عذاب نے گھیرلیا جس پر وہ ہر صبح وشام پیش کئے جاتے ہیں۔ اس آیت میں عذاب دارین کا صریح ذکر ہے اس کے سوا اور کسی کا احتمال ہی نہیں ( دارین سے قبر کا عذاب اور پھر قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے ) تیسری آیت شریفہ {فَذَرْهُمْ حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي فِيهِ يُصْعَقُونَ}(الطور:45) ہے۔ یعنی اے رسول! ان کافروں کو چھوڑ دیجئے۔ یہاں تک کہ وہ اس دن سے ملاقات کریں جس میں وہ بے ہوش کردئیے جائیں گے‘ جس دن ان کا کوئی مکر ان کے کام نہیں آسکے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔ ( اس آیت میں بھی اس دن سے موت اور قبر کا دن مراد ہے ) بخاری شریف میں حدیث ابی ہریرہ ؓ میں ذکر ہے کہ رسول کریم ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ»اے اللہ! میں تجھ سے عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوںاور ترمذی میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ عذاب قبر کے بارے میں ہم مشکوک رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آیات{أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ}(التکاثر: 2‘1) نازل ہوئی ( گویا ان آیات میں بھی مراد قبر کا عذاب ہی ہے ) حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ جب کافر مرتا ہے تو اسے قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے تیرا رب کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ پس اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔ پس حضرت ابن مسعود ؓ نے آیتوَمَن أَعرَضَ عَن ذِکرِيفَاِنَّ لَهُ مَعِیشَة ضَنکاً ( طہ: 124 ) کو پڑھا ( کہ جو کوئی ہماری یاد سے منہ موڑے گا اس کو نہایت تنگ زندگی ملے گی ) یہاں تنگ زندگی سے قبر کا عذاب مراد ہے۔ حضرت براءبن عازب نے آیت شریفہ{وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ} ( السجدة:21)کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں بھی عذاب قبر ہی کا ذکر ہے۔ یعنی کافروں کو بڑے سخت ترین عذاب سے پہلے ایک ادنیٰ عذاب میں داخل کیا جائے گا ( اور وہ عذاب قبر ہے ) ایسا ہی قتادہ اور ربیع بن انس نے آیت شریفہ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَینِ(التوبة:101)(ہم ان کو دو دفعہ عذاب میں مبتلا کریں گے۔)کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ کہ ایک عذاب سے مراد دنیا کا عذاب اور دوسرے سے مراد قبر کا عذاب ہے۔قال الحافظ ابن رجب وقد تواترت الأحادیث عن النبي ﷺ في عذاب القبر۔یعنی حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ عذاب قبر کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے متواتر احادیث مروی ہیں جن سے عذاب قبر کا حق ہونا ثابت ہے۔ پھر علامہ نے ان احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ یہاں بھی چند احادیث مذکور ہوئی ہیں۔ باب اثبات عذاب القبر پر حضرت حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:لم يَتَعَرَّضِ الْمُصَنِّفُ فِي التَّرْجَمَةِ لِكَوْنِ عَذَابِ الْقَبْرِ يَقَعُ عَلَى الرُّوحِ فَقَطْ أَوْ عَلَيْهَا وَعَلَى الْجَسَدِ وَفِيهِ خِلَافٌ شَهِيرٌ عِنْدَ الْمُتَكَلِّمِينَ وَكَأَنَّهُ تَرَكَهُ لِأَنَّ الْأَدِلَّةَ الَّتِي يَرْضَاهَا لَيْسَتْ قَاطِعَةً فِي أَحَدِ الْأَمْرَيْنِ فَلَمْ يَتَقَلَّدِ الْحُكْمَ فِي ذَلِكَ وَاكْتَفَى بِإِثْبَاتِ وُجُودِهِ خِلَافًا لِمَنْ نَفَاهُ مُطْلَقًا مِنَ الْخَوَارِجِ وَبَعْضِ الْمُعْتَزِلَةِ كَضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو وَبِشْرٍ الْمَرِيسِيِّ وَمَنْ وَافَقَهُمَا وَخَالَفَهُمْ فِي ذَلِكَ أَكْثَرُ الْمُعْتَزِلَةِ وَجَمِيعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَغَيْرِهِمْ وَأَكْثَرُوا مِنَ الِاحْتِجَاجِ لَهُ وَذَهَبَ بَعْضُ الْمُعْتَزِلَةِ كَالْجَيَّانِيِّ إِلَى أَنَّهُ يَقَعُ عَلَى الْكُفَّارِ دُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَبَعْضُ الْأَحَادِيثِ الْآتِيَةِ تَرُدُّ عَلَيْهِمْ أَيْضًا۔(فتح الباري)خلاصہ یہ کہ مصنف ( امام بخاری ؒ ) نے اس بارے میں کچھ تعرض نہیں فرمایا کہ عذاب قبر فقط روح کو ہوتا ہے یا روح اور جسم ہر دو پر ہوتا ہے۔ اس بارے میں متکلمین کا بہت اختلاف ہے۔ حضرت امام نے قصداً اس بحث کو چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ ان کے حسب منشاء کچھ دلائل قطعی اس بارے میں نہیں ہیں۔ پس آپ نے ان مباحث کو چھوڑ دیا اور صرف عذاب قبر کے وجود کو ثابت کردیا۔ جب کہ خوارج اور کچھ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں جیسے ضرار بن عمرو‘ بشر مریسی وغیرہ اور ان لوگوں کی جملہ اہلسنت بلکہ کچھ معتزلہ نے بھی مخالفت کی ہے اور بعض معتزلہ جیانی وغیرہ ادھر گئے ہیں کہ عذاب قبر صرف کافروں کو ہوتا ہے ایمان والوں کو نہیں ہوتا۔ مذکور بعض احادیث ان کے اس غلط عقیدہ کی تردید کررہی ہیں۔ بہرحال عذاب قبر برحق ہے جو لوگ اس بارے میں شکوک وشبہات پیدا کریں ان کی صحبت سے ہر مسلمان کو دور رہنا واجب ہے اور ان کھلے ہوئے دلائل کے بعد بھی جن کی تشفی نہ ہو، ان کی ہدایت کے لیے کوشاں ہونا بیکار محض ہے۔ وباللہ التوفیق۔ تفصیل مزید کے لیے حضرت مولانا الشیخ عبیداللہ صاحب مبارک پوری ؒ کا بیان ذیل قابل مطالعہ ہے حضرت موصوف لکھتے ہیں:(باب إثبات عذاب القبر) قال في اللمعات: المراد بالقبر هنا عالم البرزخ، قال تعالى: {ومن ورائهم برزخ إلى يوم يبعثون} [100:23] وهو عالم بين الدنيا والآخرة له تعلق بكل منهما، وليس المراد به الحفرة التي يدفن فيها الميت، فرب ميت لا يدفن كالغريق، والحريق، والمأكول في بطن الحيوانات، يعذب، وينعم، ويسأل، وإنما خص العذاب بالذكر للاهتمام، ولأن العذاب أكثر لكثرة الكفار والعصاة -انتهى. قلت: حاصل ما قيل في بيان المراد من البرزخ أنه اسم لأنقطاع الحياة في هذا العالم المشهود، أي دار الدنيا، وابتداء حياة أخرى، فيبدأ شيء من العذاب أو النعيم بعد إنقطاع الحياة الدنيوية، فهو أول دار الجزاء، ثم توفى كل نفس ما كسبت يوم القيامة عند دخولها في جهنم أو الجنة، وإنما أضيف عذاب البرزخ ونعيمه إلى القبر لكون معظمه يقع فيه، ولكون الغالب على الموتى أن يقبروا، وإلا فالكافر ومن شاء الله عذابه من العصاة يعذب بعد موته ولو لم يدفن، ولكن ذلك محجوب عن الخلق إلا من شاءالله. وقيل: لا حاجة إلى التأويل فإن القبر اسم للمكان الذي يكون في الميت من الأرض، ولا شك أن محل الإنسان ومسكنه بعد انقطاع الحياة الدنيوية هي الأرض كما أنها كانت مسكناً له في حياته قبل موته، قال تعالى {ألم نجعل الأرض كفاتاً، أحياء وأمواتاً} [77: 25، 26] أي ضامة للأحياء والأموات، تجمعهم وتضمهم وتحوزهم، فلا محل للميت إلا الأرض، سواء كان غريقاً أو حريقاً أو مأكولاً في بطن الحيوانات من السباع على الأرض، والطيور في الهواء، والحيتان في البحر، فإن الغريق يرسب في الماء فيسقط إلى أسفله من الأرض، أو الجبل إن كان تحته جبل، وكذا الحريق بعد ما يصير رماداً لا يستقر إلا على الأرض سواء أذرى في البر أو البحر، وكذا المأكول، فإن الحيوانات التي تأكله لا تذهب بعد موتها إلا إلى الأرض، فتصير تراباً. والحاصل أن الأرض محل جميع الأجسام السفلية ومقرها لا ملجأ لها إلا إليها فهي كفات لها. واعلم أنه قد تظاهرت الدلائل من الكتاب والسنة على ثبوت عذاب القبر، وأجمع عليه أهل السنة، ولا مانع في العقل أن يعيد الله الحياة في جزء من الجسد أو في جميعه على الخلاف المعروف فيثيبه ويعذبه، وإذا لم يمنعه العقل، وورد به الشرع وجب قبوله واعتقاده، ولا يمنع من ذلك كون الميت قد تفرقت أجزاءه كما يشاهد في العادة، أو أكلته السباع، والطيور، وحيتان البحر، كما أن الله تعالى يعيده للحشر وهو قادر على ذلك، فلا يستبعد تعلق روح الشخص الواحد في آن واحد بكل واحد من أجزائه المتفرقة في المشارق والمغارب، فإن تعلقه ليس على سبيل الحلول حتى يمنعه الحلول في جزء من الحلول في غيره، فلا استحالة في تعذيب ذرات الجسم في محالها، كيف وقد ثبت بالعقل والنقل الشعور في الجمادات؟ قال في مصابيح الجامع: وقد كثرت الأحاديث في عذاب القبر حتى قال غير واحد: إنها متواترة لا يصح عليها التواطئ وإن لم يصح مثلها لم يصح شيء من أمر الدين آخرہ۔(مرعاة، جلد: اول/ ص:130) مختصر مطلب یہ کہ لمعات میں ہے کہ یہاں قبر سے مراد عالم برزخ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ مرنے والوں کے لیے قیامت سے پہلے ایک عالم اور ہے جس کا نام برزخ ہے اور یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عالم ہے جس کا تعلق دونوں سے ہے اور قبر سے وہ گڑھا مراد نہیں جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سی میت دفن نہیں کی جاتی ہیں جیسے ڈوبنے والا اور جلنے والا اور جانوروں کے پیٹوں میں جانے والا۔ حالانکہ ان سب کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور ان سب سے سوال جواب ہوتے ہیں اور یہاں عذاب کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ اس کاخاص اہتمام ہے اور اس لیے کہ اکثر طور پر گنہگاروں اور جملہ کافروں کے لیے عذاب ہی مقدر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حاصل یہ ہے کہ برزخ اس عالم کا نام ہے جس میں دار دنیا سے انسان زندگی منقطع کرکے ابتدائے دار آخرت میں پہنچ جاتا ہے۔ پس دنیاوی زندگی کے انقطاع کے بعد وہ پہلا جزا اور سزا کا گھر ہے پھر قیامت کے دن ہر نفس کو اس کا پورا پورا بدلہ جنت یا دوزخ کی شکل میں دیا جائے گا اور عذاب اور ثواب برزخ کو قبر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ انسان اسی کے اندر داخل ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ غالب موتی قبر ہی میں داخل کئے جاتے ہیں ورنہ کافر اور گنہگار جن کو اللہ عذاب کرنا چاہے اس صورت میں بھی وہ ان کو عذاب کرسکتا ہے کہ وہ دفن نہ کئے جائیں۔ یہ عذاب مخلوق سے پردہ میں ہوتا ہے الامن شاءاللہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تاویل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قبر اسی جگہ کا نام ہے جہاں میت کا زمین میں مکان بنے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا آخری مکان زمین ہی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کو زندگی اور موت ہر حال میں ٹھکانا بنایا ہے۔ وہ زندہ اور مردہ سب کو جمع کرتی ہے اور سب کو شامل ہے پس میت ڈوبنے والے کی ہو یا جلنے والے کی یا بطن حیوانات میں جانے والے کی خواہ زمین کے بھیڑیوں کے پیٹ میں جائے یا ہوا میں پرندوں کے شکم میں یا دریا میں مچھلیوں کے پیٹ میں‘ سب کا نتیجہ مٹی ہونا اور زمین ہی میں ملنا ہے اور جان لوکہ کتاب وسنت کے ظاہر دلائل کی بناپر عذاب قبر برحق ہے جس پر جملہ اہل اسلام کا اجماع ہے اور اس بارے میں اس قدر تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ اگر ان کو بھی صحیح نہ تسلیم کیا جائے تو دین کا پھر کوئی بھی امر صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ مزید تفصیل کے لیے کتاب الروح علامہ ابن قیم کا مطالعہ کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to invoke (Allah): "Allahumma ini a'udhu bika min 'adhabi-l-Qabr, wa min 'adhabi-nnar, wa min fitnati-l-mahya wa-lmamat, wa min fitnati-l-masih ad-dajjal. (O Allah! I seek refuge with you from the punishment in the grave and from the punishment in the Hell fire and from the afflictions of life and death, and the afflictions of Al-Masih Ad-Dajjal." ________