تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے متعلق معلومات مہیا کی جائیں کہ وہ مسنم، یعنی زمین پر کوہان شتر کی طرح ابھری ہوئی تھی یا مسطح، یعنی زمین کے برابر تھی، اسی طرح وہ نمایاں تھی یا غیر نمایاں، نیز گھر میں قبر بنانا کیسا ہے؟ اس سلسلے میں چند اصولی باتیں حسب ذیل ہیں: مسلمانوں میں سے جو فوت ہو جائیں انہیں قبرستان میں دفن کیا جائے تاکہ زائرین کی دعاؤں سے انہیں فائدہ پہنچے، گھروں میں دفن کرنا شریعت کے ہاں پسندیدہ نہیں، کیونکہ گھروں میں نوافل وغیرہ پڑھنے کا حکم ہے جبکہ قبروں کے مقامات پر نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو جو گھر میں دفن کیا گیا یہ آپ کی خصوصیت تھی، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کے دفن کے متعلق اختلاف ہوا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے۔ کسی نے کہا کہ مسلمانوں کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا جائے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی جہاں فوت ہو وہیں دفن ہوتا ہے، پھر آپ کے بستر کی جگہ پر دفن کیا گیا۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث:1628) ترمذی کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اسی جگہ فوت کرتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ کو اس کا دفن کرنا منظور ہوتا ہے۔ (جامع الترمذي، الجنائز، حدیث:1018) چنانچہ امام بخاری ؒ نے پہلی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے دفن ہونے کی جگہ کا تعین کیا ہے۔ دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت کی ہے جس کے پیش نظر آپ کو گھر کی چار دیواری میں دفن کیا گیا اور آپ کی قبر مبارک کو برسرعام نہیں بنایا گیا۔ وہ اندیشہ یہ تھا کہ مبادا یہودونصاریٰ کی طرح اہل اسلام بھی آپ کی قبر مبارک کو عبادت گاہ بنا لیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔ (مسندأحمد:367/2) عید سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا۔ ان خطرات کے سدباب کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کو گھر کی چار دیواری کے اندر بنایا گیا۔ دوسری حدیث میں اس اندیشے کی وضاحت مقصود ہے۔ تیسری حدیث میں آپ کی قبر کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ کوہان نما تھی، زمین پر بچھی ہوئی نہ تھی۔ ایک اور روایت میں امام قاسم فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور عمر ؓ کی قبروں کو دیکھا وہ نہ بلند تھیں اور نہ زمین کے ساتھ ہی ملی ہوئی تھیں۔ (المستدرك للحاکم:369/1) رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک زمین سے ایک بالشت اونچی بنائی گئی تھی، (السنن الکبریٰ للبیھقي:410/3) اس لیے قبر سے جتنی مٹی نکلے وہی قبر پر ڈال دی جائے، اضافی مٹی ڈالنے سے قبر اونچی ہو جائے گی، چنانچہ حدیث میں بھی اس کی ممانعت ہے۔ (السنن النسائي، الجنائز، حدیث:2030) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے دیوار گرنے کا سبب بیان کیا ہے کہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88 ہجری میں مسجد نبوی کی توسیع کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں انہوں نے امہات المومنین کے حجروں کو خریدا تاکہ انہیں مسجد میں شامل کر دیا جائے، چنانچہ انہوں نے اپنے گورنر مدینہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو لکھا کہ ان حجروں کو گرا کر مسجد کو وسیع کر دیا جائے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنی نگرانی میں انہیں گرانے کا حکم دیا۔ جب حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کے اردگرد عمارت مکمل ہو گئی تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے حجرے کو گرانے کا حکم دیا جس میں رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ مدفون تھے۔ حجرہ گرنے کے بعد قبریں نمایاں ہو گئیں اور ان پر جو کنکریاں اور ریت ڈالی گئی تھی وہ ایک طرف ہو گئی۔ اس دوران میں پاؤں ننگے ہونے کا واقعہ پیش آیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔ آپ نے اپنے غلام حضرت مزاحم کو قبریں درست کرنے کا حکم دیا۔ رجاء بن حیوہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابوبکر کے پہلو میں حضرت عمر ؓ کی قبر ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے دائیں جانب اور حضرت عمر ؓ آپ کے بائیں جانب ہیں۔ اس روایت کی سند انتہائی کمزور ہے۔ اس کی تاویل تو کی جا سکتی ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ (فتح الباري:326/3)