Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The speech of the deceased upon the bier)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1393.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:’’جب میت کو چار پائی پر رکھا جاتا ہے پھر لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ نیک آدمی ہوتا ہے تو کہتا ہے:مجھے آگے لے چلو۔مجھے آگے لے چلو۔ اور اگر وہ بدکار ہوتا ہے تو کہتا ہے :افسوس تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ میت کی اس آواز کو انسان کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔ اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے۔‘‘
تشریح:
1۔ جنازہ اٹھاتے وقت اللہ تعالیٰ میت کو برزخی زبان عطا فرماتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت کے شوق میں بے قرار ہو کر کہتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی اپنے مقام پر پہنچاؤ تاکہ میں اپنی مراد حاصل کروں۔ اور اگر وہ دوزخی ہے تو گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے افسوس! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ (2) اس سے ملتا جلتا عنوان پہلے گزر چکا ہے جس کے الفاظ ہیں:چارپائی پر رکھا ہوا جنازہ کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے کر چلو، اس تکرار میں حکمت یہ ہے کہ گزشتہ عنوان اپنے سے سابق عنوان کے مناسب تھا کہ اس میں جنازے کو جلدی لے جانے کی وجہ بیان کی گئی تھی اور مذکورہ بھی اپنے سے پہلے عنوان کے مناسب ہے کہ اس میں پیشی کی ابتدا کو بیان کیا گیا ہے کہ جنازہ اٹھاتے ہی اس کا آغاز ہو جاتا ہے کیونکہ میت کو اسی وقت اپنے انجام کا پتہ چل جاتا ہے۔ (فتح الباري:310/3) والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1341
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1380
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1380
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1380
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:’’جب میت کو چار پائی پر رکھا جاتا ہے پھر لوگ اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ نیک آدمی ہوتا ہے تو کہتا ہے:مجھے آگے لے چلو۔مجھے آگے لے چلو۔ اور اگر وہ بدکار ہوتا ہے تو کہتا ہے :افسوس تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ میت کی اس آواز کو انسان کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔ اگر انسان سن لے تو بے ہوش ہوجائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ جنازہ اٹھاتے وقت اللہ تعالیٰ میت کو برزخی زبان عطا فرماتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت کے شوق میں بے قرار ہو کر کہتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی اپنے مقام پر پہنچاؤ تاکہ میں اپنی مراد حاصل کروں۔ اور اگر وہ دوزخی ہے تو گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے افسوس! تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ (2) اس سے ملتا جلتا عنوان پہلے گزر چکا ہے جس کے الفاظ ہیں:چارپائی پر رکھا ہوا جنازہ کہتا ہے کہ مجھے جلدی لے کر چلو، اس تکرار میں حکمت یہ ہے کہ گزشتہ عنوان اپنے سے سابق عنوان کے مناسب تھا کہ اس میں جنازے کو جلدی لے جانے کی وجہ بیان کی گئی تھی اور مذکورہ بھی اپنے سے پہلے عنوان کے مناسب ہے کہ اس میں پیشی کی ابتدا کو بیان کیا گیا ہے کہ جنازہ اٹھاتے ہی اس کا آغاز ہو جاتا ہے کیونکہ میت کو اسی وقت اپنے انجام کا پتہ چل جاتا ہے۔ (فتح الباري:310/3) والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔
حدیث حاشیہ:
جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے۔ جس میں وہ اگر جنتی ہے تو جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھ کو جلدی جلدی لے چلو تاکہ جلد اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر وہ دوزخی ہے تو وہ گھبرا گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس وقت اللہ پاک ان کو اس طور پر مخفی طریقہ سے بولنے کی طاقت دیتا ہے اور اس آواز کو انسان اور جنوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔ اس حدیث سے سماع موتی پر بعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں صاف سماع موتی کی نفی موجود ہے۔ ﴿اِنَّكَ لاَ تُسمِعُ المَوتیٰ﴾(النمل: 80) اگر مرنے والے ہماری آوازیں سن پاتے تو ان کو میت ہی نہ کہا جاتا۔ اسی لیے جملہ ائمہ ہدیٰ نے سماع موتی کا انکار کیا ہے۔ جو لوگ سماع موتی کے قائل ہیں ان کے دلائل بالکل بے وزن ہیں۔ دوسرے مقام پر اس کا تفصیلی بیان ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri : Allah's Apostle (ﷺ) said, "When the funeral is ready (for its burial) and the people lift it on their shoulders, then if the deceased is a righteous person he says, 'Take me ahead,' and if he is not a righteous one then he says, 'Woe to it (me)! Where are you taking it (me)?' And his voice is audible to everything except human beings; and if they heard it they would fall down unconscious . "