تشریح:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے گزرنے والے جنازے کی برائی کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’واجب ہو گئی۔‘‘ حضرت عمر فاروق ؓ نے دریافت کیا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کی برائی کرنے سے اس پر آگ واجب ہو گئی، کیونکہ تم زمین پر اللہ کی طرف سے گواہی دینے والے ہو۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1367) میت کی برائی بیان کرنا اسے گالی دینا نہیں، لہذا مذکورہ حدیث پہلی حدیث کے منافی نہیں۔ (فتح الباري:327/3) میت کو برا بھلا کہنے کی دو قسمیں ہیں: ٭ کافر میت کو اگر برا بھلا کہنے سے کسی زندہ مسلمان کو تکلیف ہوتی ہو تو ایسا کرنا سخت منع ہے۔ ٭ اگر کسی مسلمان کو ضرورت کے پیش نظر برا بھلا کہا جائے تو یہ ایک شہادت ہے جسے ادا کیا جا سکتا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے بعض مرنے والوں کو برا بھلا کہا ہے۔ (فتح الباري:328/3) (2) حضرت عائشہ ؓ نے ایک واقعے کے پس منظر میں یہ حدیث بیان کی: حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے موقع پر یزید بن قیس ارجی کے ہاتھ حضرت عائشہ ؓ کے نام ایک خط روانہ کیا جس کا انہوں نے جواب نہ دیا۔ حضرت عائشہ ؓ کو یہ بات پہنچی کہ اس (یزید) نے آپ کے متعلق حرف گیری کی ہے تو آپ نے اس پر لعنت کی۔ جب آپ کو پتہ چلا کہ وہ مر گیا ہے تو آپ نے أستغفراللہ پڑھا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ (فتح الباري:328/3) (3) عام حکم تو یہی ہے کہ مردوں کو برا بھلا نہ کہا جائے۔ اگر کوئی لعین ابو لہب جیسا بدبخت و بدکردار ہو تو اسے برائی سے یاد کرنا جائز ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے خود اس کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔