تشریح:
(1) معلوم ہوا کہ قرب قیامت ایسے انقلابات آئیں گے کہ آج کا محتاج آدمی کل امیر کبیر بن جائے گا، اس لیے وقت کو غنیمت خیال کرتے ہوئے محتاج لوگوں کی موجودگی میں صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ اس لیے ’’ابھی حساب نہیں کیا، کل دیں گے۔‘‘ کی روش ترک کر دی جائے، کیونکہ اللہ کے ہاں صدقے کا بڑھنا اسی صورت میں ہو گا کہ اسے جلدی حقداروں تک پہنچا دیا جائے۔ مذکورہ روش بعض اوقات ایسے حالات میں پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جن میں اسے کوئی بھی قبول کرنے والا نہ مل سکے۔ صدقے کا مقصود اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ محتاج اور اسے لینے والا موجود ہو۔ (2) کہا جا سکتا ہے کہ اگر محتاج مفقود ہو جائیں تو دینے والے کو نیت کا ثواب تو ضرور ملے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اسے صرف حسن نیت ہی کا ثواب ملے گا جو محض اللہ کا فضل ہے، لیکن صدقہ اپنے محل تک پہنچا دینے سے حسن نیت اور صدقہ دونوں کا ثواب ملتا ہے، اس لیے صدقہ دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ (فتح الباري:356/3)