تشریح:
(1) اس حدیث میں اوپر والے اور نیچے والے ہاتھ کی تفسیر بھی بیان ہوئی ہے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تفسیر راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی ہے، اس بنا پر یہ تفسیر مدرج ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ ہی سے یہ تفسیر مروی ہے۔ مسند احمد میں حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مرفوع روایت ہے کہ اللہ کا ہاتھ دینے والے کے اوپر اور دینے والے کا ہاتھ لینے والے کے اوپر اور لینے والے کا ہاتھ سب سے نیچے ہوتا ہے۔ (مسندأحمد:402/3) ایک روایت میں ہے کہ ہاتھ تین طرح کے ہیں: اللہ کا ہاتھ سب سے اونچا، دینے والے کا ہاتھ اس سے متصل اور سوال کرنے والے کا ہاتھ تو سب سے نیچے ہے۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1649) ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ صدقہ وصول کرنے والا ہے۔ (فتح الباري:375/3) (2) امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان کو صاحب دولت بن کر رہنا چاہیے۔ اپنے مال سے حق زکاۃ ادا کر کے کوشش کرے کہ اس کا ہاتھ اوپر رہے اور زندگی بھر کسی کے سامنے دست سوال پھیلا کر ذلت و رسوائی مول نہ لے، احتیاج اور ضرورت کے باوجود بھی دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے بلکہ صبر و استقلال سے کام لے کر اپنی خودداری کو قائم رکھے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوت بازو کی محنت پر گزارہ کرے۔