تشریح:
(1) اس حدیث سے وجوب حج اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ قبیلۂ خثعم کی عورت نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فریضۂ حج جو اس کے بندوں پر عائد ہے، رسول اللہ ﷺ اس پر خاموش رہے، گویا اسے فرضیت حج بیان کرنے پر رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل ہے۔ فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اسے ادا کرنے میں نیابت طلب کی گئی ہے، نیز عذر کے وقت بھی یہ حکم ہے کہ حج ساقط نہیں ہوگا بلکہ معذور کو چاہیے کہ وہ اپنا نائب مقرر کرکے حج بدل کرائے۔ (2) فضیلت حج کے لیے کئی ایک احادیث مروی ہیں:حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1773) حج مبرور وہ ہوتا ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ حضرت ابو ہریره ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے حج کیا اور اس میں اپنی بیوی کے پاس نہ گیا اور نہ ہی اس نے کوئی فسق وفجور کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے پاک صاف ہوکر اس دن کی طرح واپس ہوگا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔‘‘(صحیح البخاري، الحج، حدیث:1521) (3)واضح رہے کہ حج نو ہجری کے آخر میں فرض ہواتھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ سال دس ہجری میں ادا فرمایا۔ (4) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی معذور کی طرف سے حج کرنا جائز ہے جسے حج بدل کہا جاتا ہے بشرطیکہ حج بدل کرنے والا پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ اور حج بدل کسی کے مرنے کے بعد بھی اس کی طرف سے کرنا جائز ہے۔