تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ لید وغیرہ سے طہارت حاصل نہیں ہوتی لہٰذا انھیں استنجا کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں وضاحت ہے کہ جو لید حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھا کر لائے تھے وہ گدھے کی لید تھی اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دو چند ہو جاتی ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے جنات کو غذا میسر آتی ہے۔ اس لیے اسے بطور استنجا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک فقہی اختلاف کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ ڈھیلوں سے استنجا کا مقصد تطہیر نجاست ہے یا تقلیل نجاست؟ جن حضرات کے نزدیک تطہیر نجاست ہے ان کے نزدیک ہڈی یا لید وغیرہ سے استنجا نہیں ہو گا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اسی طرف ہے اور جن حضرات کے نزدیک اس سے مراد تقلیل نجاست ہے ان کے نزدیک ہڈی اور خشک لید سے استنجا صحیح ہے اگرچہ خلاف سنت ہے۔
2۔ استنجا کے متعلق تین باتیں قابل غور ہیں۔ 1۔ انقائے محل 2۔ تثلیث 3۔ ایتار۔ انقائے محل سے مراد بول و براز کے محل کو صاف کرنا ہے اور اس کے لیے کم ازکم تین ڈھیلے استعمال کرنا تثلیث ہے اگر زیادہ کی ضرورت ہو تو طاق تعداد میں استعمال کیے جائیں اسے ایتار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حدیث میں صراحت ہے کہ تم میں سے کوئی تین ڈھیلوں سے کم تعداد میں استنجا نہ کرے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 606(262)) اور اگر تین ڈھیلوں سے انقائے محل کا مقصد حاصل نہ ہو تو تین سے زیادہ ڈھیلے استعمال ہو سکتے ہیں لیکن ان میں طاق تعداد کا لحاظ رکھنا ہو گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تم میں سے جب کوئی طہارت کے لیے ڈھیلے استعمال کرے تو طاق تعداد (وتر) کا لحاظ رکھے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 585(239)) لیکن امام طحاوی نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ تین پتھروں کی رعایت ضروری نہیں۔ اگر صفائی دو پتھروں سے ہو جائے تو کافی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔(شرح معاني الآثار: 73/1) یہ استدلال اس لیے محل نظر ہے کہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیسرا پتھر لانے کا حکم دیا۔ (مسند احمد: 450/1) یہ صراحت دارقطنی (55/1) میں بھی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ طہارت کے لیے کم ازکم تین پتھر ہونے ضروری ہیں اگرچہ ایک یا دو کے استعمال سے صفائی ہو جائے جیسا کہ عدت کے لیے تین حیض کا عدد مطلوب ہے اگرچہ استبرائے رحم کا مقصد ایک مرتبہ حیض آنے سے پورا ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري: 337/1)۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ کے واسطے سے نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن اسود کے طریق سے ہے دراصل امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے متعلق اپنے استاد حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے اختلاف کیا ہے انھوں نے یہ روایت بایں سند ذکر کی ہے: (اسرائيل عن أبي إسحاق عن أبي عبيدة۔۔۔۔۔) اور اس پر اعتماد کیا ہے، اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نقل کردہ مذکورہ روایت پر اعتراض کیا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت بایں سند ہے۔(زهير عن أبي إسحاق عن عبدالرحمن بن الأسود عن الأسود) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت سند کے لحاظ سے عالی ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے مرجوح قراردیا ہے۔ اس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔ 1۔ زہیر اسرائیل کے مقابلے میں زیادہ بلند مرتبہ ہے جیسا کہ ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ سے اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرنے میں زہیر اور اسرائیل کا مرتبہ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: کہ زہیر، اسرائیل سے بہت زیادہ بلند مرتبہ ہے۔
2۔ شریک قاضی اس روایت کی تائید میں زہیر متابعت کرتا ہے اور یہ متابعت قوی ہے۔
3۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسرائیل نے ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سےعمر کے اس حصے میں سماع کیا ہے جبکہ انھیں اختلاط ہو چکا تھا۔ اس کے علاوہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے خود صراحت کی ہے کہ ابو عبیدہ نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ نہیں سنا جبکہ زہیر کا طریق متصل ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آخر میں ابراہیم بن یوسف کی متابعت ذکر کی ہے دراصل سلیمان شاذ کونی نے اس روایت کے پیش نظر ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کو تدلیس کا الزام دیا ہے کہ اس روایت میں عبد الرحمٰن بن اسود سے بیان کرنے میں تحدیث یا اخبار کی صراحت نہیں ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس الزام کا جواب دیا ہے کہ ابراہیم بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے جب اس روایت کو بیان کیا ہے تو انھوں نے تحدیث کے صیغے سے نقل کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ پر تدلیس کا الزام غلط ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر مدلس سے روایت نقل کرنے کا اعتراض بھی بے بنیاد ہے۔ (فتح الباري: 338/1)
5۔ قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے وقت استنجا فرماتے تو اس کے بعد مٹی سے مل کر ہاتھوں کو پانی سے خوب صاف کرتے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 45) مٹی کے بجائے ہاتھوں کو صابن وغیرہ سے بھی صاف کیا جا سکتا ہے۔