باب: اس بارے میں کہ داہنے ہاتھ سے طہارت کرنے کی ممانعت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: It is forbidden to clean the private parts with the right hand)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
156.
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص کوئی چیز نوش کرے تو برتن میں سانس نہ لے، نیز جب بیت الخلا آئے تو دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہ چھوئے اور نہ اس سے استنجا کرے۔‘‘
تشریح:
1۔ قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ استنجا کے لیے دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ قدرت نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فضیلت دی ہے۔ اس لیے اس کی شرافت کا تقاضا ہے کہ اس سے ادنیٰ اور ارذل کام نہ لیے جائیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ کھانے کے وقت دایاں ہاتھ استعمال ہوتا ہے جب کھانا کھاتے وقت استنجا سے متعلقہ بات یاد آئے گی توطبیعت میں تکدر اور ناگواری پیدا ہوگی۔ اہل ظاہر کے نزدیک یہ نہی حرمت کے لیے ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اگردائیں ہاتھ سے استنجا کیا تو اس سے طہارت نہیں ہوگی جبکہ جمہور کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ اس کا تعلق آداب سے ہے۔ (عمدة القاري: 420/2) 2۔ حدیث میں استنجا کے متعلق دو جملے استعمال ہوئے ہیں: پہلا یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے عضو مستور کو نہ چھوئے۔ اس کا تعلق پیشاب سے ہے۔ اور دوسرا جملہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔ اس سے مراد ہے کہ فراغت کے بعد دائیں ہاتھ کو اس کام کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ پیشاب کرتے وقت کبھی کبھی چھینٹوں سے بچنے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے اور فراغت کے بعد استنجا میں ڈھیلے یا پانی استعمال کرتے وقت ہاتھ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حدیث نے وضاحت سے بتا دیا کہ ایسی چیزوں میں دائیں ہاتھ کا استعمال نامناسب ہے۔ یہ اس ہاتھ کی شرافت ومنزلت کے خلاف ہے۔ (عمدة القاري: 420/2) 3۔ پانی پیتے وقت بھی برتن میں سانس نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ منہ سے نکلی ہوئی گندی بھاپ پانی کو مکدر کردیتی ہے اور پانی دوسروں کے پینے کے قابل نہیں رہتا، نیز سانس لینے سے ممکن ہے کہ لعاب دہن یا ناک کی رطوبت پانی میں گر جائے۔ اس کے علاوہ یہ حیوانوں کی عادت ہے کہ جب وہ ایک مرتبہ پانی کے برتن میں منہ ڈال دیتے ہیں تو پانی بھی پیتے رہتے ہیں اور سانس بھی لیتے رہتے ہیں، لہٰذا شریعت نے پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینے سے منع فرما دیا۔ اسلامی ادب یہ ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کردیا جائے اور تین سانس لے کر پانی پیا جائے۔ (فتح الباري: 333/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
155
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
153
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
153
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
153
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص کوئی چیز نوش کرے تو برتن میں سانس نہ لے، نیز جب بیت الخلا آئے تو دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہ چھوئے اور نہ اس سے استنجا کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ قضائے حاجت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ استنجا کے لیے دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ قدرت نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فضیلت دی ہے۔ اس لیے اس کی شرافت کا تقاضا ہے کہ اس سے ادنیٰ اور ارذل کام نہ لیے جائیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ کھانے کے وقت دایاں ہاتھ استعمال ہوتا ہے جب کھانا کھاتے وقت استنجا سے متعلقہ بات یاد آئے گی توطبیعت میں تکدر اور ناگواری پیدا ہوگی۔ اہل ظاہر کے نزدیک یہ نہی حرمت کے لیے ہے۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ اگردائیں ہاتھ سے استنجا کیا تو اس سے طہارت نہیں ہوگی جبکہ جمہور کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے کیونکہ اس کا تعلق آداب سے ہے۔ (عمدة القاري: 420/2) 2۔ حدیث میں استنجا کے متعلق دو جملے استعمال ہوئے ہیں: پہلا یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے عضو مستور کو نہ چھوئے۔ اس کا تعلق پیشاب سے ہے۔ اور دوسرا جملہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے استنجا نہ کرے۔ اس سے مراد ہے کہ فراغت کے بعد دائیں ہاتھ کو اس کام کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ پیشاب کرتے وقت کبھی کبھی چھینٹوں سے بچنے کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے اور فراغت کے بعد استنجا میں ڈھیلے یا پانی استعمال کرتے وقت ہاتھ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ حدیث نے وضاحت سے بتا دیا کہ ایسی چیزوں میں دائیں ہاتھ کا استعمال نامناسب ہے۔ یہ اس ہاتھ کی شرافت ومنزلت کے خلاف ہے۔ (عمدة القاري: 420/2) 3۔ پانی پیتے وقت بھی برتن میں سانس نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس کا نقصان یہ ہے کہ منہ سے نکلی ہوئی گندی بھاپ پانی کو مکدر کردیتی ہے اور پانی دوسروں کے پینے کے قابل نہیں رہتا، نیز سانس لینے سے ممکن ہے کہ لعاب دہن یا ناک کی رطوبت پانی میں گر جائے۔ اس کے علاوہ یہ حیوانوں کی عادت ہے کہ جب وہ ایک مرتبہ پانی کے برتن میں منہ ڈال دیتے ہیں تو پانی بھی پیتے رہتے ہیں اور سانس بھی لیتے رہتے ہیں، لہٰذا شریعت نے پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینے سے منع فرما دیا۔ اسلامی ادب یہ ہے کہ سانس لینے کے لیے برتن کو منہ سے الگ کردیا جائے اور تین سانس لے کر پانی پیا جائے۔ (فتح الباري: 333/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ سے، وہ اپنے باپ ابوقتادہ ؓ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانہ میں جائے تو اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whenever anyone of you drinks water, he should not breathe in the drinking utensil, and whenever anyone of you goes to a lavatory, he should neither touch his penis nor clean his private parts with his right hand."