تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کے آغاز میں اللہ کا نام لینے کے لیے بطور ثبوت جماع کے وقت دعا پڑھنے کا ذکر کیا تھا۔ چونکہ جماع کے بعد استنجاء کیا جاتا ہے، اس لیے استطراد کے طور پر قضائے حاجت کے آداب شروع کر دیے۔ ان سے فراغت کے بعد دوبارہ اصل مقصود یعنی آداب وضو کی طرف رجوع فرمایا: وضو کے متعلق یہ مضمون کہ اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا جائے آغاز میں سند کے بغیر بیان ہوچکا ہے یعنی ایک ایک مرتبہ اعضاء دھونے سے فرض کی ادائیگی ہو جاتی ہے چونکہ ایک مسلمان کے لیے ہر وقت باوضو رہنا مطلوب اور پسندیدہ عمل ہے اس لیے استنجا کرنے کے بعد وضو کرتے وقت اعضائے وضو کے ایک ایک مرتبہ دھونے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ عام حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے وضو کرتے وقت اعضاء کو تین تین مرتبہ دھوتے تھے۔ ایک ایک مرتبہ دھونے کی تین صورتیں ممکن ہیں۔ 1۔ بیان جواز کے لیے۔ 2۔ پانی کم ہونے کے پیش نظر۔ 3۔ ہنگامی حالات کے وقت، بہرحال یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لیے وضو کرتے وقت اعضائے وضو کو کم ازکم ایک ایک مرتبہ دھونا ضروری ہے نیز یہ روایت مجمل ہے۔ تفصیلی روایت پہلے بیان ہو چکی ہے۔ (صحیح البخاري، الطهارة، حدیث: 140) اس وضاحت کے بعد ’’امام تدبر‘‘کی بھی سنیے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ گویا امام صاحب کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ’’قضائے حاجت کے مضمون کو طہارت اور وضو کے تحت بیان مناسب نہیں تھا۔ امام صاحب کو چاہیے تھا کہ اس مقصد کے لیے الگ عنوان قائم کرتے۔‘‘ (تدبر حدیث: 259/1) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’امام تدبر‘‘کے نزدیک آداب قضائے حاجت کا طہارت اور وضو سے کوئی تعلق نہیں۔ دراصل مزعومہ تدبر کی آڑ میں حدیث اور اصحاب الحدیث کا استخفاف مقصود ہے جو ان حضرات کی تالیفات میں بکثرت موجود ہے۔