تشریح:
(1) یہ واقعہ حضرت ؑ کے دوبارہ آنے اور ان کے وفات پانے کے بعد ہو گا جب قرآنی تعلیمات کو سینوں سے اٹھا لیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کو انہدام کعبہ کا منظر دکھایا گیا، پھر آپ نے اس چشم دید واقعہ سے اپنی امت کو آگاہ فرمایا کہ کعبہ کو گرانے والا سیاہ فام حبشی تکبر و غرور سے چلتا ہوا آئے گا۔ چلنے میں اس کے دونوں پنجے تو نزدیک، البتہ ایڑیوں میں فاصلہ ہو گا۔ سر سے گنجا، ناک پھیلی ہوئی، پیٹ بڑا، اپنے ہاتھ میں بھالا پکڑے ہوئے آئے گا۔ اس کے ساتھ اس قماش کے دوسرے لوگ بھی ہوں گے جو اس کی سربراہی میں بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور اس کا ایک ایک پتھر اکھاڑ کر سمندر میں پھینک دیں گے۔ اور ایسا عین قرب قیامت کے وقت ہو گا۔ (2) مسند احمد میں یہ روایت ذرا تفصیل سے بیان ہوئی ہے کہ ایک آدمی کی مقام ابراہیم اور رکن یمانی کے درمیان بیعت لی جائے گی اور اس بیت اللہ کو خود مسلمان ہی سب سے پہلے اپنے لیے حلال خیال کریں گے۔ جب ایسے واقعات رونما ہوں گے تو عرب کی تباہی قریب ہو گی۔ پھر اس کے بعد حبشی آئیں گے جو اس کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکیں گے اور اس کے خزانے نکال لیں گے۔ اس کے بعد کعبہ کبھی آباد نہیں ہو گا۔ (مسندأحمد:291/2، والصحیحة، حدیث:2743) ایک روایت میں ہے کہ اس میں موجود سونے چاندی کے زیورات نکال لیں گے اور اس کا غلاف بھی اتار پھینکیں گے، گویا میں اب بھی اس گنجے سیاہ فام چھوٹی پنڈلیوں والے حبشی کو دیکھ رہا ہوں، اس کے ہاتھ میں بھالا ہے، جس سے وہ بیت اللہ کے پتھر اکھاڑ رہا ہے۔ (مسندأحمد:220/2) (3) واضح رہے کہ انہدام کا یہ واقعہ عین قرب قیامت کے وقت ہو گا جب زمین پر کوئی بھی اللہ کا نام لینے والا باقی نہیں رہے گا، اس لیے یہ واقعہ کعبہ کے امن و امان کا گہوارہ ہونے کے خلاف نہیں کیونکہ اس کا امن و امان قیامت تک رہنے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري؛583/3)