تشریح:
1۔ حضرت عمر ؓ صرف اتباع کی نیت سے حجراسود کو بوسہ دیتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبروں کی چوکھٹ یا ان کی زمین کو چومنا بدعت اور جہالت کے کام ہیں۔ اسلامی روایات کے مطابق حجراسود کی حیثیت ایک تاریخی پتھر کی ہے۔ اہل اسلام اس کی جو تعظیم استلام کی صورت میں بجا لاتے ہیں وہ صرف اس بنا پر ہے کہ مذہب اسلام کی حقانیت پر یہ پتھر ایک تاریخی شاہد عادل کی حیثیت رکھتا ہے جسے ہزاروں سال کے انقلابات ختم نہ کر سکے۔ رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات کا اثر ہے کہ مسلمان ان سے سرمو انحراف نہیں کرتے اور نہ دوسری دیواروں کے پتھروں ہی کو چومتے ہیں کیونکہ مسلمان مخلوق کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے تابع ہوتا ہے۔ مخلوق میں سے جو چیز محترم ہوتی ہے وہ بالذات نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے اسے قابل احترام سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے بیت اللہ، حجراسود اور صفا مروہ وغیرہ محترم قرار پاتے ہیں۔ اگر کوئی کام ایسا ہو جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک نہ پہنچتی ہو تو اسلام اسے بدعت کہتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے حجراسود کو چومتے وقت اسی حقیقت کو اجاگر فرمایا ہے کہ ذاتی طور پر یہ ایک پتھر ہے جو کسی کے نفع یا نقصان کا مالک نہیں۔ ہم اس کی جو تعظیم چومنے کی صورت میں بجا لاتے ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور آپ کی سنت کے اتباع کا نتیجہ ہے اور کچھ نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ کو حجراسود کے متعلق صرف یہی روایت ان کی قائم کردہ شرائط کے مطابق دستیاب ہوئی ورنہ اس کے متعلق کتب حدیث میں متعدد روایات موجود ہیں، چنانچہ حضرت ابن عباس ؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن حجراسود کی زبان اور دو ہونٹ ہوں گے اور جس نے اخلاص نیت سے اسے بوسہ دیا ہو گا، اس کے متعلق یہ پتھر حق پر ہونے کی گواہی دے گا۔ (صحیح ابن خزیمة:220/4) حدیث میں ہے کہ حجراسود جنت کا پتھر ہے۔ یہ برف سے زیادہ سفید تھا لیکن ابن آدم کی خطاؤوں نے اسے سیاہ کر دیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:220/4، والصحیحة للألباني، حدیث:2618) محب طبری نے کہا ہے کہ اس سے لوگوں کو عبرت لینی چاہیے کہ اگر انسانوں کے گناہ ایک پتھر کو سیاہ کر سکتے ہیں تو اس کے دل کو سیاہ کیوں نہیں کر سکتے، لہذا لوگوں کو اللہ کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ (فتح الباري:584/3)