تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی مختصر اور مفصل دو روایات پیش کی ہیں۔ ان سے مقصود دو مسئلے ثابت کرنے ہیں: ٭ دسویں ذوالحجہ کو صبح کی نماز مزدلفہ میں ادا کرنی چاہیے، البتہ جو کمزور اور ناتواں حضرات و خواتین ہوں انہیں اجازت ہے کہ وہ رات کے پچھلے حصے میں منیٰ آ جائیں اور نماز فجر منیٰ میں ادا کر کے کنکریاں وغیرہ مار لیں۔ ٭ نماز فجر بروقت ہی ادا کریں، البتہ معمول کے وقت سے کچھ پہلے پڑھ لیں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے صبح صادق سے پہلے پڑھ لیا جائے جیسا کہ بعض حضرات نے گمان کیا ہے بلکہ اسے طلوع فجر کے بعد ہی پڑھنا ہو گا جیسا کہ صحیح بخاری ہی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر طلوع فجر کے وقت پڑھی۔ (حدیث: 1683) صحیح مسلم میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب و عشاء پڑھنے کے بعد سو گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی، پھر صبح کھلنے کے بعد نماز فجر ادا کی۔ ویسے بھی آپ کا معمول تھا کہ نماز فجر اندھیرے میں ادا کرتے تھے لیکن اس دن طلوع فجر کے فورا بعد ہی آپ نے نماز فجر ادا کر لی تاکہ وقوف مزدلفہ کے لیے کچھ وقت مل جائے۔ (2) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق جو الفاظ استعمال کیے ہیں حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ بعینہ یہی الفاظ وقوف عرفہ سے لوٹتے وقت ادا کیے تھے، چنانچہ جب عرفہ میں وقوف کیا اور سورج غروب ہو گیا تو انہوں نے فرمایا: اگر امیر المومنین اس وقت مزدلفہ لوٹیں تو سنت کے مطابق عمل کریں۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے یہ بات پہلے کہی یا حضرت عثمان ؓ نے مزدلفہ کی طرف کوچ پہلے کیا۔ (فتح الباري:671/3)