تشریح:
1۔ اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو کے لیے پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہو گی جب نماز کا وقت آ جائے کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق جب نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ ہو تو وضو کرنا چاہیے یعنی طہارت کا یہ فریضہ نماز کا وقت آنے پر عائد ہوتا ہے، اس لیے پانی کی تلاش بھی وقت آنے پر ہی ضروری ہوگی، اس سے پہلے پانی کی تلاش کا مکلف قرارنہیں دیا جا سکتا جس نے وقت آنے پر پانی تلاش کیا اور نہ ملنے کی صورت میں تیمم کیا اسے ملامت نہیں کی جائے گی کہ اس نے قبل از وقت پانی تلاش کیوں نہیں کیا۔ اس سلسلے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک بیان نقل کیا گیا ہے کہ ایک سفر میں میرا ہار گم ہو جانے کی وجہ سے قافلے کو اس منزل سے پہلے ٹھہرنا پڑا جہاں پانی ملنے کی توقع تھی پانی نہ ملنے کے سبب پریشانی ہوئی تو آیت تیمم نازل ہوئی عنوان بایں طور ثابت ہوا کہ پانی کی تلاش وقت نماز کے بعد کی گئی۔ پانی نہ ملنے پر لوگوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا کہ تم نے پہلے سے بندوبست کیوں نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے پانی کی تلاش ضروری نہیں۔
2۔ حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا ذکر ہے کہ آپ کی انگشت ہائے مبارک سے پانی کے چشمے پھوٹے جس سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے وضو کیا اس واقعے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اہم مسئلے پر تنبیہ فرمائی ہے کہ بلاشبہ پانی کی تلاش اس وقت ضروری ہوگی جب نماز کا وقت آجائے گا۔ لیکن تلاش کے بعد پانی نہ ملنے کی صورت کیا ہے؟ وہ اس حدیث سے معلوم ہو رہی ہے کہ پانی نہ ملنے کی معتاد اور غیر معتاد تمام صورتیں ختم ہو جائیں تو تیمم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کسی غیر معتاد طریقے سے پانی ملنے کا امکان ہوتو تیمم جائز نہ ہو گا۔ اگر غیر معتاد صورت بھی ختم ہو جائے تو تیمم جائز ہوگا یعنی جب تک تمام ظاہری اور غیر ظاہری اسباب ختم نہ ہو جائیں اور ہر طرف سے مایوسی نہ ہو جائے اس وقت تک تیمم کرنا جائزنہیں۔ اس حدیث کا عنوان سے گہرا تعلق ہے لیکن جو لوگ احادیث بخاری کے متعلق شبہات و تشکیک پیدا کرنے کے خوگر ہیں وہ کسی انداز میں اس کا اظہار کر دیتے ہیں چنانچہ ’’امام تدبر‘‘ لکھتے ہیں: ’’امام صاحب نے باب میں تعلیق صبح کی نماز کی دی ہے جبکہ روایت نماز عصر سے متعلق ہے اور اس میں تیمم کی نوبت نہیں آئی۔‘‘ (تدبر حدیث: 272/1) یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم اور سوچ بچار کا محور! اب انھیں کون بتائے کہ تعلیق کا واقعہ اور ہے اور روایت میں اس کے علاوہ دوسرا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزے کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کئی ایک راوی بیان کرتے ہیں تمام روایات کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں چنانچہ حسن بصری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معجزہ کسی سفر میں رونما ہوا تھا اور اس میں حاضرین کی تعداد ستر اسی کے لگ بھگ تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3574) جبکہ حضرت قتادۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینے کی نواحی آبادی زوراء میں تھے اور اس پانی سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد تین سو کے قریب تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3572) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تعداد واقعات پر محمول کرنے کے علاوہ جمع و تطبیق کی کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ (فتح الباري: 714/6)
4۔ بخاری کے شارح ابن بطال نے دعوی کیا ہے کہ یہ واقعہ بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے رونما ہوا لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ اسے کوئی دوسرا بیان کرنے والا نہیں۔ (شرح إبن بطال: 264/1) قاضی عیاض نے ان کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے کو عدد کثیر نے جم غفیر سے نقل کیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے قاضی عیاض کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واقعہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہےاس کے علاوہ پانی کے زیادہ ہونے کے معجزے کو حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حبان الصدائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیان کرتے ہیں جو مختلف کتب حدیث میں مروی ہے۔ (فتح الباري: 715/6) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان روایات و طرق کے بعد ابن بطال کا نام لے کر ان کے دعوائے بے بنیاد کی تردید کی ہے لیکن جو حضرات تدبر کی آڑ میں احادیث بخاری کا استخفاف اور ان میں تشکیک پیدا کرنے کی سعی نامشکور کرنے کے درپے رہتے ہیں انھوں نے اندھیرے میں بایں الفاظ تیر پھینکا ہے۔’’اس روایت میں ایک مشکل یہ ہے کہ موقع ایسا ہے جب بہت سے لوگوں نے وضو کیا اور یہ معجزہ دیکھا ہو گا۔ لہٰذا یہ واقعہ متعدد طریقوں سے نقل ہونا چاہیے تھا لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کسی سے اس کی روایت نہیں ہے قاضی عیاض کا دعوی ہے کہ اس کے راوی بے شمار ہیں یہ تواتر سے ثابت ہے اور اس پر اجماع ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ وہ روایات ہیں کہاں! ابن حجر کو بھی یہ بات کھٹکی ہے کہ اتنے اہم واقعہ کے ایک ہی راوی ہیں۔‘‘ (تدبر حدیث: 271/1) اس عبارت میں کس قدر دجل و فریب سے کام لیا ہے اور محدثین کے متعلق کس قدر زہر اگلا ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ دراصل یہ حضرات جاہلی ادب پڑھتے پڑھتے احادیث کے متعلق جہالت کا شکار ہیں۔﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ اس حدیث کے متعلق دیگر تفصیلات کتاب المناقب میں بیان ہوں گی۔