باب: وضو اور غسل میں داہنی جانب سے ابتداء کرنا ضروری ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: While performing ablution or taking a bath one should start from the right side of the body)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
171.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے جوتا پہننا ہوتا، کنگھی کرنی یا پاکی حاصل کرنی ہوتی، الغرض آپ کو ہر ذی شان کام میں دائیں جانب سے آغاز کرنا اچھا لگتا تھا۔
تشریح:
1۔ عربی زبان میں تیمُّن کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً دائیں جانب سے ابتدا کرنا، دائیں ہاتھ سے کوئی چیز لینا، تبرک حاصل کرنا اور قسم کھانا، وغیرہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ حدیث تیمُّن کا معنی متعین فرمایا کہ اس سے مراد دائیں جانب سے آغاز کرنا ہے۔ یہ لفظ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام میں تیمُّن پسند تھا۔ (فتح الباري: 358/1) امام بخاری کی عنوان بندی کے متعلق معروف عادت ہے کہ جب انھیں کسی زیر بحث مسئلے کے استدلال میں تنگی نظر آتی ہے تو عنوان کو وسعت دینے کے لیے اس کے ساتھ اسی طرح کی کوئی اور چیز شامل کر دیتے ہیں جس سے مطلب حاصل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے یہاں بھی وضو میں دائیں جانب سے آغاز کے متعلق جب احادیث میں تنگی نظر آئی تو آپ نے وضو کے ساتھ غسل کا مسئلہ شامل کردیا تاکہ غسل کے متعلق مسئلہ تیمُّن سے وضو میں دائیں جانب سے آغاز کرنے کا مسئلہ واضح ہو جائے کیونکہ اس مسئلے میں غسل اور وضو کا حکم یکساں ہے چنانچہ جب غسل میت کے وضو میں دائیں جانب سے شروع کرنا مطلوب ہے تو پھر نماز کے وضو میں رعایت بدرجہ اولیٰ ملحوظ رہنی چاہیے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو غسل دینے کے متعلق جو ہدایات دی تھیں، ان میں دو باتیں ہیں۔ (1)۔ دائیں جانب سے شروع کرنا۔ (2)۔ مقامات وضو سے شروع کرنا ان دونوں باتوں پر بیک وقت عمل کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ غسل کا آغاز اعضائے وضو سے اسی طرح کیا جائے کہ پہلے میت کا دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں ہاتھ اسی طرح جب پاؤں دھونے کی نوبت آئے تو پہلے دایاں پاؤں پھر بایاں پاؤں دھویا جائے۔ اس کے بعد تمام جسم کو غسل دیا جائے۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرے نمبر پر بیان کیا ہے حالانکہ اس میں لفظ ’’طہور‘‘ موجود ہےجو وضو کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنے کے متعلق بڑی وزنی دلیل ہے لیکن آپ نے اپنے عنوان کے لیے اس حدیث کو بنیاد نہیں بنایا کیونکہ اس حدیث میں تیمُّن اور طہور کے الفاظ اشتراک واجمال کی وجہ سے مقصد کے لیے نص نہیں ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ لفظ تیمُّن دائیں جانب سے شروع کرنے، قسم کھانے، تبرک حاصل کرنے اور دائیں ہاتھ سے لینے کے معانی میں مشترک ہے اسی طرح لفظ طہور میں اجمال ہے کہ اس سے مراد بدن کی طہارت ہے یا کپڑے کی پھر اس سے مراد غسل ہے یا وضو انہی وجوہات کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرا درجہ دیا اور حدیث اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہلا درجہ دے کر اس سےمسئلہ زیر بحث ثابت فرمایا۔ 4۔ دائیں جانب اختیار کرنے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ جن امور کا تعلق تکریم و تعظیم اور تزئین و تحسین سے ہے وہ دائیں جانب سے شروع کیے جائیں، مثلاً لباس زیب تن کرنا، موزے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، ناخن کاٹنا، مونچھیں مونڈنا، بالوں میں کنگھی کرنا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، سر منڈوانا، نماز میں سلام پھیرنا، اعضائے طہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، مصافحہ کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینا وغیرہ اور جو امور ان کے برعکس ہیں ان میں بائیں جانب اختیار کی جائے، مثلاً: بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، استنجا کرنا، ناک صاف کرنا، کپڑے یا موزے یا جرابیں اتارنا وغیرہ نیز بعض اعضائے وضو ایسے بھی ہیں۔ جن میں دائیں یا بائیں کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہیں یکبار ہی دھونا پڑتا ہے مثلاً ہاتھ کان رخسار وغیرہ۔ (عمدة القاري: 472/2) 5۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی المقدور دائیں جانب اہتمام کرتے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 426) اس کا مطلب یہ ہے کہ دائیں جانب اختیار کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر بائیں جانب اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 354/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
170
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
168
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
168
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
168
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے جوتا پہننا ہوتا، کنگھی کرنی یا پاکی حاصل کرنی ہوتی، الغرض آپ کو ہر ذی شان کام میں دائیں جانب سے آغاز کرنا اچھا لگتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عربی زبان میں تیمُّن کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً دائیں جانب سے ابتدا کرنا، دائیں ہاتھ سے کوئی چیز لینا، تبرک حاصل کرنا اور قسم کھانا، وغیرہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ حدیث تیمُّن کا معنی متعین فرمایا کہ اس سے مراد دائیں جانب سے آغاز کرنا ہے۔ یہ لفظ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام میں تیمُّن پسند تھا۔ (فتح الباري: 358/1) امام بخاری کی عنوان بندی کے متعلق معروف عادت ہے کہ جب انھیں کسی زیر بحث مسئلے کے استدلال میں تنگی نظر آتی ہے تو عنوان کو وسعت دینے کے لیے اس کے ساتھ اسی طرح کی کوئی اور چیز شامل کر دیتے ہیں جس سے مطلب حاصل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے یہاں بھی وضو میں دائیں جانب سے آغاز کے متعلق جب احادیث میں تنگی نظر آئی تو آپ نے وضو کے ساتھ غسل کا مسئلہ شامل کردیا تاکہ غسل کے متعلق مسئلہ تیمُّن سے وضو میں دائیں جانب سے آغاز کرنے کا مسئلہ واضح ہو جائے کیونکہ اس مسئلے میں غسل اور وضو کا حکم یکساں ہے چنانچہ جب غسل میت کے وضو میں دائیں جانب سے شروع کرنا مطلوب ہے تو پھر نماز کے وضو میں رعایت بدرجہ اولیٰ ملحوظ رہنی چاہیے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو غسل دینے کے متعلق جو ہدایات دی تھیں، ان میں دو باتیں ہیں۔ (1)۔ دائیں جانب سے شروع کرنا۔ (2)۔ مقامات وضو سے شروع کرنا ان دونوں باتوں پر بیک وقت عمل کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ غسل کا آغاز اعضائے وضو سے اسی طرح کیا جائے کہ پہلے میت کا دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں ہاتھ اسی طرح جب پاؤں دھونے کی نوبت آئے تو پہلے دایاں پاؤں پھر بایاں پاؤں دھویا جائے۔ اس کے بعد تمام جسم کو غسل دیا جائے۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرے نمبر پر بیان کیا ہے حالانکہ اس میں لفظ ’’طہور‘‘ موجود ہےجو وضو کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنے کے متعلق بڑی وزنی دلیل ہے لیکن آپ نے اپنے عنوان کے لیے اس حدیث کو بنیاد نہیں بنایا کیونکہ اس حدیث میں تیمُّن اور طہور کے الفاظ اشتراک واجمال کی وجہ سے مقصد کے لیے نص نہیں ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ لفظ تیمُّن دائیں جانب سے شروع کرنے، قسم کھانے، تبرک حاصل کرنے اور دائیں ہاتھ سے لینے کے معانی میں مشترک ہے اسی طرح لفظ طہور میں اجمال ہے کہ اس سے مراد بدن کی طہارت ہے یا کپڑے کی پھر اس سے مراد غسل ہے یا وضو انہی وجوہات کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرا درجہ دیا اور حدیث اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہلا درجہ دے کر اس سےمسئلہ زیر بحث ثابت فرمایا۔ 4۔ دائیں جانب اختیار کرنے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ جن امور کا تعلق تکریم و تعظیم اور تزئین و تحسین سے ہے وہ دائیں جانب سے شروع کیے جائیں، مثلاً لباس زیب تن کرنا، موزے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، ناخن کاٹنا، مونچھیں مونڈنا، بالوں میں کنگھی کرنا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، سر منڈوانا، نماز میں سلام پھیرنا، اعضائے طہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، مصافحہ کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینا وغیرہ اور جو امور ان کے برعکس ہیں ان میں بائیں جانب اختیار کی جائے، مثلاً: بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، استنجا کرنا، ناک صاف کرنا، کپڑے یا موزے یا جرابیں اتارنا وغیرہ نیز بعض اعضائے وضو ایسے بھی ہیں۔ جن میں دائیں یا بائیں کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہیں یکبار ہی دھونا پڑتا ہے مثلاً ہاتھ کان رخسار وغیرہ۔ (عمدة القاري: 472/2) 5۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی المقدور دائیں جانب اہتمام کرتے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 426) اس کا مطلب یہ ہے کہ دائیں جانب اختیار کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر بائیں جانب اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 354/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انھیں اشعث بن سلیم نے خبر دی، ان کے باپ نے مسروق سے سنا، وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور اپنے ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتدا کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) used to like to start from the right side on wearing shoes, combing his hair and cleaning or washing himself and on doing anything else.