تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا ان احادیث کے بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ ایام منیٰ میں خطبہ مشروع ہے۔ (2) ان احادیث میں اگرچہ دس ذوالحجہ کے خطبے کا ذکر ہے، تاہم دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام تشریق میں جب بھی ضرورت محسوس ہوئی آپ ﷺ نے خطبہ دیا جیسا کہ بعض روایات میں أوسط أيام التشريق کے الفاظ ہیں: اس سے گیارہ یا بارہ ذوالحجہ مراد ہے۔ اس خطبے میں یوم النحر، ماہ ذی الحجہ اور مکہ مکرمہ کی عظمتوں کا ذکر ہے۔ امت کو اس پر تنبیہ فرمائی تاکہ وہ انہیں فراموش نہ کر دے، پھر اس میں لوگوں کے حج سے متعلق سوال و جواب بھی ہوئے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ نے ان تعلیمات کو خطبے کا نام دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اسی دن یہ فرمایا تھا: ’’مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔‘‘ (3) حضرت ہرماس بن زیاد، حضرت ابو امامہ، حضرت معاذ اور حضرت رافع بن عمرو ؓ سے بھی روایات ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ کے دن دس ذوالحجہ کو خطبہ دیا تھا۔ اس عظیم الشان خطبے کو اساس الاسلام قرار دیا جاتا ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف صحابۂ کرام ؓ نے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری ؓ کا مقصد خطبے کی تفاصیل سے آگاہ کرنا نہیں بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ قربانی کے دن بھی خطبہ دینا مسنون ہے۔ واللہ أعلم۔ (4) حضرت ابو نضرہ کی روایت میں ایام تشریق کے درمیان والے دن کا خطبہ ان الفاظ میں مروی ہے، آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! خبردار! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر ہی کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی سرخ کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو سرخ پر کوئی برتری حاصل ہے۔ اگر ہے تو صرف تقوے کی بنا پر۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟‘‘ صحابۂ کرام ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے پہنچا دیا ہے۔ (مسندأحمد:411/5) (5) مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران حج میں تین خطبے مشروع ہیں: ٭ عرفہ کے دن 9 ذوالحجہ۔ ٭ نحر کے دن 10 ذوالحجہ۔ ٭ ایام تشریق کے وسط میں 12 ذوالحجہ۔