باب : منی کی راتوں میں جو لوگ مکہ میں پانی پلاتے ہیں یا اور کچھ کام کرتے ہیں وہ مکہ میں رہ سکتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: May those who provide the pilgrims with water stay at Makkah during the nights of Mina?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1762.
حضرت ابن عمر ؓ سے ایک اورروایت ہے کہ حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب نے نبی کریم ﷺ سے اجازت طلب کی کہ پانی پلانے کے انتظامات کرنے کے لیے منیٰ کی راتیں مکہ مکرمہ میں بسر کریں تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ ابو اسامہ، عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے عبداللہ بن نمیر سے روایت کرنے میں محمد بن عبداللہ کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) طواف افاضہ کے بعد ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنی چاہئیں اور ان دنوں زوال آفتاب کے بعد تین جمرات کو رمی کی جائے اور اللہ کا ذکر کیا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ طواف افاضہ کرنے کے بعد منیٰ کی طرف لوٹے اور ایام تشریق کی راتیں وہیں بسر کیں۔ اس دوران میں جب سورج ڈھل جاتا تو آپ جمرات کو کنکریاں مارتے۔ جمہور علماء کے نزدیک ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری ہیں کیونکہ یہ عمل مناسک حج میں سے ہے اور مناسک حج پر عمل کرنا واجب ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دنوں فرمایا تھا: ’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘ (2) امام بخاری ؒ نے صرف ضرورت مند حضرات کے لیے مکہ میں رات گزارنے کی اجازت کو ثابت کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عذر نہ ہو تو منیٰ میں ایام تشریق کی راتیں گزارنا ضروری ہیں، اجازت طلب کرنے اور رخصت دینے کا مطلب بھی یہی ہے۔ یہ اجازت کسی ضرورت کے پیش نظر ہے جیسا کہ حضرت عباس ؓ نے حاجیوں کو پانی پلانے کا بندوبست کرنا تھا، اس لیے انہوں نے اجازت طلب کی اور رسول اللہ ﷺ نے رخصت دے دی، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر رات گزارنے کی اجازت دی۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1975) یہ ضرورت عام ہے، خواہ پانی پلانے کا بندوبست کرنا ہو یا بیماری وغیرہ لاحق ہو۔ اگر کوئی دو دن قیام کے بعد واپس لوٹ آئے تو اس کی بھی اجازت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاذْكُرُوا اللَّـهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾’’اور ان گنتی کے دنوں میں اللہ کو یاد کرو پھر جس نے دو دنوں (منیٰ سے مکے کی طرف واپسی) میں جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘(البقرة:203:2) (3) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں تین روایات پیش کی ہیں۔ پہلی روایت کا متن علامہ اسماعیلی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو پانی پلانے کا بندوبست کرنے کی وجہ سے ایام تشریق کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت دی۔ اسی طرح دوسری روایت کے متن کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ (مسندأحمد:19/2) ابو اسامہ کی متابعت کو امام مسلم نے، عقبہ بن خالد کى متابعت کو عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں اور ابو ضمرہ انس بن عیاض کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے باب سقایۃ الحاج، حدیث: 1634 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:730/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1697
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1745
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1745
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1745
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر ؓ سے ایک اورروایت ہے کہ حضرت عباس ؓ بن عبدالمطلب نے نبی کریم ﷺ سے اجازت طلب کی کہ پانی پلانے کے انتظامات کرنے کے لیے منیٰ کی راتیں مکہ مکرمہ میں بسر کریں تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ ابو اسامہ، عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے عبداللہ بن نمیر سے روایت کرنے میں محمد بن عبداللہ کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) طواف افاضہ کے بعد ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنی چاہئیں اور ان دنوں زوال آفتاب کے بعد تین جمرات کو رمی کی جائے اور اللہ کا ذکر کیا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ طواف افاضہ کرنے کے بعد منیٰ کی طرف لوٹے اور ایام تشریق کی راتیں وہیں بسر کیں۔ اس دوران میں جب سورج ڈھل جاتا تو آپ جمرات کو کنکریاں مارتے۔ جمہور علماء کے نزدیک ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری ہیں کیونکہ یہ عمل مناسک حج میں سے ہے اور مناسک حج پر عمل کرنا واجب ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دنوں فرمایا تھا: ’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘ (2) امام بخاری ؒ نے صرف ضرورت مند حضرات کے لیے مکہ میں رات گزارنے کی اجازت کو ثابت کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عذر نہ ہو تو منیٰ میں ایام تشریق کی راتیں گزارنا ضروری ہیں، اجازت طلب کرنے اور رخصت دینے کا مطلب بھی یہی ہے۔ یہ اجازت کسی ضرورت کے پیش نظر ہے جیسا کہ حضرت عباس ؓ نے حاجیوں کو پانی پلانے کا بندوبست کرنا تھا، اس لیے انہوں نے اجازت طلب کی اور رسول اللہ ﷺ نے رخصت دے دی، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اونٹوں کے چرواہوں کو منیٰ سے باہر رات گزارنے کی اجازت دی۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1975) یہ ضرورت عام ہے، خواہ پانی پلانے کا بندوبست کرنا ہو یا بیماری وغیرہ لاحق ہو۔ اگر کوئی دو دن قیام کے بعد واپس لوٹ آئے تو اس کی بھی اجازت ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاذْكُرُوا اللَّـهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾’’اور ان گنتی کے دنوں میں اللہ کو یاد کرو پھر جس نے دو دنوں (منیٰ سے مکے کی طرف واپسی) میں جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘(البقرة:203:2) (3) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں تین روایات پیش کی ہیں۔ پہلی روایت کا متن علامہ اسماعیلی نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عباس ؓ کو پانی پلانے کا بندوبست کرنے کی وجہ سے ایام تشریق کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت دی۔ اسی طرح دوسری روایت کے متن کو امام احمد نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔ (مسندأحمد:19/2) ابو اسامہ کی متابعت کو امام مسلم نے، عقبہ بن خالد کى متابعت کو عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں اور ابو ضمرہ انس بن عیاض کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے باب سقایۃ الحاج، حدیث: 1634 کے تحت متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:730/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر ؓ نے کہ عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے منیٰ کی راتوں میں (حاجیوں ) کو پانی پلانے کے لیے مکہ میں رہنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ اس روایت کی متابعت محمد بن عبداللہ کے ساتھ ابواسامہ عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جس کو کوئی عذر نہ ہو اس کا منیٰ کی راتوں میں منی میں رہنا واجب ہے، شافعیہ اور حنابلہ اور اہل حدیث کا یہی قول ہے اور بعض کے نزدیک یہ واجب نہیں سنت ہے۔ ( وحیدی ) و في الحدیث دلیل علی وجوب المبیت بمنی و أنه من مناسك الحج لأن التعبیر بالرخصة یقتضي أن مقابلهاواجب وأن الإذن وقع للعلة المذکورة و إذا لم توجد أو ما في معناها لم یحصل الإذن و بالوجوب قال الجمهور۔ ( فتح ) یعنی منی میں رات گزارنا واجب اور مناسک ِحج سے ہے، جمہور کا یہی قول ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو علت مذکورہ کی وجہ سے مکہ میں رات گزارنے کی اجازت ہی دلیل ہے کہ جب ایسی کوئی علت نہ ہو تو منیٰ میں رات گزارنا واجب ہے اور جمہور کا یہی قول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Al-Abbas asked the permission from the Prophet (ﷺ) to stay at Mecca during the nights of Mina in order to provide water to the people, so the Prophet (ﷺ) allowed him.