تشریح:
اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ مقام حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کو کفار قریش نے عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ آپ نے وہیں احرام کھول دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے صحابۂ کرام ؓ کو اس عمرے کی قضا کا حکم نہ دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ محصر پر قضا ضروری نہیں۔ آئندہ سال جو عمرہ کیا تھا وہ بطور قضا نہیں بلکہ اسے عمرۃ القضاء اس لے کہا جاتا ہے کہ وہ کفار قریش سے طے شدہ فیصلے کے نتیجے میں کیا گیا تھا، چنانچہ ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ چھ ہجری کا عمرہ بطور قضا نہیں تھا بلکہ وہ قریش سے طے شدہ شرط کے مطابق تھا کہ مسلمان آئندہ سال اسی مہینے میں عمرہ کریں جس میں انہوں نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا تھا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي:219/5، وفتح الباري:16/4)