قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ المُحْصَرِ (بَابُ مَنْ قَالَ لَيْسَ عَلَى المُحْصَرِ بَدَلٌ)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ رَوْحٌ: عَنْ شِبْلٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍؓ «إِنَّمَا البَدَلُ عَلَى مَنْ نَقَضَ حَجَّهُ بِالتَّلَذُّذِ، فَأَمَّا مَنْ حَبَسَهُ عُذْرٌ أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ، فَإِنَّهُ يَحِلُّ وَلاَ يَرْجِعُ، وَإِنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ وَهُوَ مُحْصَرٌ نَحَرَهُ، إِنْ كَانَ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَبْعَثَ بِهِ، وَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَبْعَثَ بِهِ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى يَبْلُغَ الهَدْيُ مَحِلَّهُ» وَقَالَ مَالِكٌ وَغَيْرُهُ: يَنْحَرُ هَدْيَهُ وَيَحْلِقُ فِي أَيِّ مَوْضِعٍ كَانَ، وَلاَ قَضَاءَ عَلَيْهِ، لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ [ص:10] وَأَصْحَابَهُ بِالحُدَيْبِيَةِ نَحَرُوا وَحَلَقُوا وَحَلُّوا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ قَبْلَ الطَّوَافِ، وَقَبْلَ أَنْ يَصِلَ الهَدْيُ إِلَى البَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يُذْكَرْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَحَدًا أَنْ يَقْضُوا شَيْئًا، وَلاَ يَعُودُوا لَهُ وَالحُدَيْبِيَةُ خَارِجٌ مِنَ الحَرَمِ

1813. حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ حِينَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ مُعْتَمِرًا فِي الْفِتْنَةِ إِنْ صُدِدْتُ عَنْ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ أَجْلِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ ثُمَّ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ نَظَرَ فِي أَمْرِهِ فَقَالَ مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ فَالْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ ثُمَّ طَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا وَرَأَى أَنَّ ذَلِكَ مُجْزِيًا عَنْهُ وَأَهْدَى

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ای قضاءلما احصر فیہ من حج او عمرۃ و ہذا ہو قول الجمہور ( فتح ) یعنی جب وہ حج یا عمرہ سے روک دیاگیا ہو اور جمہور کا قول یہی ہے جو حضرت امام بخاری کا فتوی ہے کہ محصر کے لیے قضاءضروری نہیں۔ اور روح نے کہا، ان سے شبل بن عیاد نے، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ قضاءاس صورت میں واجب ہوتی ہے جب کوئی حج میں اپنی بیوی سے جماع کرکے نیت حج کو توڑ ڈالے لیکن کوئی اور عذر پیش آگیا یا اس کے علاوہ کوئی بات ہوئی تو وہ حلال ہوتا ہے، قضا اس پر ضروری نہیں اور اگر ساتھ قربانی کا جانور تھا اور وہ محصر ہوا اور حرم میں اسے نہ بھیج سکا تو اسے نحر کردے، (جہاں پر بھی قیام ہو ) یہ اس صورت میں جب قربانی کا جانور (قربانی کی جگہ ) حرم شریف میں بھیجنے کی اسے طاقت نہ ہو لیکن اگر اس کی طاقت ہے تو جب تک قربانی وہاں ذبح نہ ہو جائے احرام نہیں کھول سکتا۔ امام مالک وغیرہ نے کہا کہ (محصر ) خواہ کہیں بھی ہو اپنی قربانی وہیں نحر کردے اورسر منڈالے۔ اس پر قضا بھی لازم نہیں کیوں کہ نبی کریم ﷺاور آپﷺکے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے حدیبیہ میں بغیر طواف اور بغیر قربانی کے بیت اللہ تک پہنچے ہوئے نحر کیا اور سر منڈایا اور وہ ہر چیز سے حلال ہو گئے، پھر کوئی نہیں کہتا کہ نبی کریم ﷺ نے کسی کو بھی قضا کا یا کسی بھی چیز کے دہرانے کا حکم دیا ہو اور حدیبیہ حد حرم سے باہر ہے۔تشریح : موطا میں امام مالک کی روایت یوں ہے : انہ بلغہ ان رسول اللہ ﷺحل ہو اصحابہ بالحدیبیۃ فنحروا الہدی و حلقوا روسہم و حلوا من کل شی قبل ان یطوف بالبیت و قبل ان یصل الیہ الہدی ثم لم نعلم ان رسول اللہ ﷺامر احدا من اصحابہ و لا ممن کان معہ ان یقضوا شیئا و لا ان یعودوا لشیی و سئل مالک عمن احصر بعدو فقال یحل من کل شیی و ینحر ہدیہ و یحلق راسہ حیث حبس و لیس علیہ قضاء ( فتح الباری ) یعنی ان کو یہ خبر ملی ہے کہ رسول کریم ﷺاور آپﷺ کے اصحاب کرام حدیبیہ میں حلال ہوگئے تھے پس انہوں نے اپنی قربانیوں کو نحر کر دیا اور سر منڈالیا اور وہ بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے ہی ہر چیز سے حلال ہوگئے، اس سے بھی پہلے کہ کعبہ تک ان کی ہدی پہنچ سکے، پھر ہم نہیں جانتے کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے کسی بھی صحابی کو کسی بھی چیز کے قضا کرنے کا حکم دیا ہو اور نہ کسی کام کے دوبارہ کرنے کا حکم دیا اور امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی دشمن کی طرف سے روک دیا جائے آپ نے فرمایا کہ وہ ہر چیز سے حلال ہوجائے اور اپنی قربانی کو نحر کردے اور سر منڈالے جہاں بھی اس کو روکا گیا ہے اس پر کوئی قضاءلازم نہیں۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قیل غرض المصنف بہذہ الترجمۃ الرد علی من قال التحلل بالاحصار خاص بالحاج بخلاف المعتمر فلا یتحلل بذلک بل یستمر علی احرامہ حتی یطوف بالبیت لان السنۃ کلہا وقت للعمرۃ فلا یخشی فواتہا بخلاف الحج الخ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس باب سے اس شخص کی تردید کرنی ہے جس نے کہا کہ روکنے کی صورت میں حلال ہونا حاجیوں کے ساتھ خاص ہے اور معتمر کے لیے یہ رحضت نہیں ہے پس وہ حلال نہ ہو بلکہ جب تک وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرلے اپنی حالت پر قائم رہے اس لیے کہ سارے سال عمرہ کا وقت ہے اور حج کے خلاف عمرہ کے وقت کے فوت ہونے کا کوئی ڈر نہیں ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہی ہے کہ احصار کی صورت میں حاجی اور عمرہ کرنے والا سب کے لیے حلال ہونے کی اجازت ہے۔

1813.

حضرت عبد اللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ فتنہ ابن زبیر کے وقت عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے تو فرمایا: اگر مجھے بیت اللہ سے روک دیا گیا تو ہم وہی کریں گے جو ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ کیا تھا۔ پھر انھوں نے عمرے کا احرام باندھا کیونکہ نبی ﷺ نے بھی حدیبیہ کے سال عمرے کی نیت سے احرام باندھا تھا۔ پھر عبد اللہ نے اپنے معاملے میں غور کیا تو فرمایا کہ حج اور عمرہ دونوں کا حکم ایک ہے، اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: چونکہ دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہے، اس لیے میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ حج بھی واجب کر لیا ہے۔ پھر انھوں نے دونوں کے لیے ایک طواف کیا اور اسے کافی سمجھا اور اپنی قربانی ذبح کی۔