تشریح:
یہ عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے جن کی تفصیل یہ ہے: ٭ حج بدل، یعنی دوسرے کی طرف سے حج کرنا۔ یہ تو روایت سے ظاہر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص خود حج واجب کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ دوسرے کو نائب نہیں بنا سکتا۔ ٭ میت کی طرف سے نذر کو پورا کرنا، یعنی حقوق واجبہ میت کی طرف سے ادا کیے جائیں کیونکہ میت نے حج کی نذر مانی تھی۔ جب نذر حج کی قضا جائز ہے تو باقی نذروں کی قضا بھی جائز ہو گی۔ ٭ مرد کا عورت کی طرف سے حج کرنا جبکہ روایت میں عورت کا عورت کی طرف سے حج کرنا ثابت ہوتا ہے، تاہم مرد، عورت کی طرف سے بطریق اولیٰ حج کر سکتا ہے کیونکہ مرد کا حج عورت کے حج سے افضل ہے۔ مرد کے حج میں عورت کے حج کی نسبت زیادہ مناسک ہیں، اس لیے جب عورت کا حج عورت کی طرف سے جائز ہے تو مرد کا حج عورت کی طرف سے بطریق اولیٰ جائز ہو گا۔ (2) دراصل امام بخاری ؒ نے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انہوں نے خود ایک دوسرے مقام پر روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ اسے ادا کرنے سے پہلے فوت ہو گئی ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث:6699) (3) حافظ ابن حجر ؒ کو فتح الباری میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے سہو ہوا ہے۔ انہوں نے فرمایا: اس حدیث میں ہے: ’’عورت نے اپنے باپ کی طرف سے حج کرنے کے متعلق دریافت کیا۔‘‘ (فتح الباري:84/4) حالانکہ حدیث میں ہے: ’’عورت نے اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کے متعلق پوچھا تھا‘‘ جس حدیث کی طرف حافظ ابن حجر ؒ نے اشارہ کیا ہے وہ آئندہ عنوان کے تحت ذکر ہو گی۔