تشریح:
(1) صحیح مسلم میں اس واقعے کی کچھ مزید تفصیل ہے۔ حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک دفعہ سنا کہ جو شخص صبح کے وقت بحالت جنابت ہو وہ روزہ نہ رکھے۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنے باپ عبدالرحمٰن بن حارث سے کیا تو انہوں نے اس موقف کا انکار کیا اور مجھے حضرت عائشہ اور ام سلمہ ؓ کے پاس لے گئے۔ ان دونوں ازواج مطہرات نے فرمایا: بسا اوقات رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت بحالت جنابت ہوتے لیکن آپ روزہ رکھ لیتے، پھر جب حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس ازواج مطہرات کے فتوے کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا: کیا واقعی انہوں نے ایسا فرمایا ہے؟ عرض کیا گیا، ہاں، تو انہوں نے فرمایا: وہ اس سلسلے میں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں۔ میں نے براہ راست رسول اللہ ﷺ سے یہ بات نہیں سنی بلکہ مجھے حضرت فضل بن عباس ؓ نے بتائی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2589(1109)) (2) حضرت ابو ہریرہ ؓ لوگوں کو فتویٰ دیتے تھے کو جو بحالت جنابت صبح کرے وہ اس دن روزہ نہ رکھے لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا، البتہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہوا، اس لیے اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتے رہے۔ پھر جب انہیں صحیح صورت حال کا علم ہوا تو اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔ اہل علم کی یہی شان ہے کہ جب انہیں صحیح بات معلوم ہو جائے تو اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) تنگی وقت کے پیش نظر جس طرح جنبی آدمی روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتا ہے اسی طرح حیض و نفاس والی عورت کا خون اگر رات کے وقت رک جائے اور وقت بالکل تھوڑا ہو تو وہ روزہ رکھنے کے بعد غسل کر سکتی ہے۔ اس پر جملہ اہل علم کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري:190/4) (4) حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ علمائے کرام کا امرائے وقت کے پاس جا کر علمی مذاکرات کرنا۔ ٭ منقولات میں اگر شک پڑ جائے تو اہل علم کی طرف رجوع کرنا۔ ٭ جن امور میں عورتوں کو زیادہ اطلاع ہو سکتی ہے، ایسے مسائل میں ان کی مرویات کو ترجیح دینا۔ ٭ جملہ معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے اقوال و معمولات کی اقتدا کرنا۔ ٭ اختلاف کے وقت کتاب و سنت کو آخری اتھارٹی قرار دینا۔ ٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جنہوں نے اعتراف حق کر کے اس کی طرف رجوع کیا۔ (فتح الباري:190/4)