تشریح:
1۔ یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے۔ اس روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ جس طشت میں آپ کو وضو کے لیے پانی پیش کیا گیا وہ پیتل کا تھا۔ امام بخاری ؒ کاموقف یہ ہے کہ وضو کے متعلق برتن کی کوئی پابندی نہیں کہ کس نوعیت کا ہے اور کس قسم کی دھات سے بنا ہوا ہے۔ صرف پانی کا پاک ہونا ضروری ہے۔ اگرچہ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ سے اس قسم کے برتنوں میں وضو کرنے کی کراہت مروی ہے۔
2۔ حضرت ابن عمر ؓ پتھر، لکڑی کے برتنوں اورچمڑے کے مشکیزے سے وضو نہیں کرتے تھے، لیکن ہمارے لیے اسوہ حسنہ تو رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔ آپ سے اس قسم کی پابندی مروی نہیں۔ ممکن ہے حضرت ابن عمر ؓ اس لیے ناپسند کرتے ہوں کہ سونے چاندی کی طرح یہ بھی معدنیات سے ہے، البتہ حافظ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ میں نے ایک روایت بھی دیکھی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اس قسم کے برتنوں میں وضو کرلیتے تھے۔ (شرح ابن بطال: 299/1)
3۔ سونے چاندی کےبرتنوں میں رسول اللہ ﷺ نے کھانے پینے سے منع فرمایا ہے، اس لیے ہمارے اسلاف اس قسم کی قیمتی دھاتوں کے برتنوں میں وضو کو ناپسند کرتے تھے۔ ویسے بھی وضو کے لیے قیمتی برتنوں کے استعمال میں تفاخر کا اظہارہوتا ہے، لہٰذا ان سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ (عمدۃ القاري:556/2)