Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
45. Chapter: The sprinkling of remaining water after performing ablution on an unconscious person by the prophet (saw)
باب: رسول اللہ ﷺکا ایک بیہوش آدمی پر اپنے وضو کا پانی چھڑکنے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The sprinkling of remaining water after performing ablution on an unconscious person by the prophet (saw))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
197.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، میں ایسا سخت بیمار تھا کہ کوئی بات نہ سمجھ سکتا تھا۔ آپ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑکا تو میں ہوش میں آ گیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا وارث کون ہو گا؟ میرا تو کوئی کلالہ ہی وارث بنے گا، تب آیت وراثت نازل ہوئی۔
تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو حضرت جابر ؓ کو بے ہوشی کا دورہ پڑا ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، المرض، حدیث: 5651) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے اور دونوں قبیلہ بنوسلمہ کے ہاں ان کی تیمارداری کے لیے پیدل گئے تھے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577) علامہ کرمانی نے اِغماء اور غشی کو ایک معنی میں لکھا ہے۔ (شرح الکرماني: 41/2) لیکن ان دونوں میں بایں طورفرق ہے کہ غشی ایک مرض کا نام ہے جو اعصابی تھکاوٹ کی وجہ سے ہوتی ہے، اور یہ اغماء سے کم درجہ ہوتی ہے۔ اغماء میں عقل مغلوب ہوجاتی ہے جبکہ دیوانگی یا جنون میں عقل مسلوب ہوجاتی ہے۔ نیند کے وقت عقل مسلوب نہیں ہوتی بلکہ مستور ہوتی ہے۔ اس عنوان سے امام بخاری ؒ کی غرض سابق باب کی تائید ہے کہ ماء مستعمل پاک ہے۔ اگرپاک نہ ہوتا تورسول اللہ ﷺ اسے حضرت جابر ؓ پر کیوں چھڑکتے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ پانی بھی ہو سکتا ہے جو وضو کرتے وقت استعمال ہوا جسے ماءِ متقاطر کہتے ہیں اور وہ پانی بھی مراد ہوسکتا ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا۔ لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ماءِ متقاطر مراد ہے، کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7309) ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا، پھر اس پانی کو مجھ پر چھڑکا۔ (سنن أبي داود، الفرائض، حدیث: 2886) 2۔ عام طور پر کلالہ کا اطلاق اس میت پر ہوتا ہے جس کے اصول وفروع میں سے کوئی نہ ہو، یعنی اس کی اولاد بھی نہ ہو اور نہ باپ دادا ہی میں سے کوئی زندہ ہو۔ مجازی طور پر میت کے وارث جو بے سہارا ہوں انھیں بھی کلالہ کہا جاتا ہے۔ اس روایت میں کلالہ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میری وارث میری ہمشیرگان ہیں جو بے سہارا ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ترکے کو بھی کلالہ کہا جاتا ہے۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام معلوم ہوئے: (الف)۔ رسول الله ﷺ کے دست مبارک کی برکت سے بیماری وغیرہ دورہوجاتی تھی۔ (ب)۔ بزرگوں کے دم وغیرہ سے بھی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ (ج)۔ بیماروں کی تیمارداری کرنا بہت بڑی فضیلت کا عمل ہے۔ (د)۔ بڑوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹوں کی تیمارداری کریں، ایساکرنا مسنون ہے۔ 3۔ آیت میراث سے مراد: ﴿ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ﴾ سے لے کر﴿وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ﴾ تک ہے۔ جیساکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الفرائض کے آغاز میں بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ﴾’’اگر کوئی موروث مرد یا عورت کلالہ ہواور اس کی ایک(اخیافی) بہن یا بھائی ہوتوان دونوں میں سے ہرایک کا چھٹا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ کلالہ کے متعلق یہ وضاحت حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کرنے پر نازل ہوئی تھی۔ اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جابر ؓ کی مذکورہ حالت کے پیش نظر سورہ نساء کی آخری آیت نازل ہوئی تھی، لیکن راجح بات امام بخاری ؒ کی بیان کردہ ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
194
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
194
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
194
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
194
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، میں ایسا سخت بیمار تھا کہ کوئی بات نہ سمجھ سکتا تھا۔ آپ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑکا تو میں ہوش میں آ گیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا وارث کون ہو گا؟ میرا تو کوئی کلالہ ہی وارث بنے گا، تب آیت وراثت نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو حضرت جابر ؓ کو بے ہوشی کا دورہ پڑا ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، المرض، حدیث: 5651) رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے اور دونوں قبیلہ بنوسلمہ کے ہاں ان کی تیمارداری کے لیے پیدل گئے تھے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577) علامہ کرمانی نے اِغماء اور غشی کو ایک معنی میں لکھا ہے۔ (شرح الکرماني: 41/2) لیکن ان دونوں میں بایں طورفرق ہے کہ غشی ایک مرض کا نام ہے جو اعصابی تھکاوٹ کی وجہ سے ہوتی ہے، اور یہ اغماء سے کم درجہ ہوتی ہے۔ اغماء میں عقل مغلوب ہوجاتی ہے جبکہ دیوانگی یا جنون میں عقل مسلوب ہوجاتی ہے۔ نیند کے وقت عقل مسلوب نہیں ہوتی بلکہ مستور ہوتی ہے۔ اس عنوان سے امام بخاری ؒ کی غرض سابق باب کی تائید ہے کہ ماء مستعمل پاک ہے۔ اگرپاک نہ ہوتا تورسول اللہ ﷺ اسے حضرت جابر ؓ پر کیوں چھڑکتے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ پانی بھی ہو سکتا ہے جو وضو کرتے وقت استعمال ہوا جسے ماءِ متقاطر کہتے ہیں اور وہ پانی بھی مراد ہوسکتا ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا۔ لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ماءِ متقاطر مراد ہے، کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7309) ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا، پھر اس پانی کو مجھ پر چھڑکا۔ (سنن أبي داود، الفرائض، حدیث: 2886) 2۔ عام طور پر کلالہ کا اطلاق اس میت پر ہوتا ہے جس کے اصول وفروع میں سے کوئی نہ ہو، یعنی اس کی اولاد بھی نہ ہو اور نہ باپ دادا ہی میں سے کوئی زندہ ہو۔ مجازی طور پر میت کے وارث جو بے سہارا ہوں انھیں بھی کلالہ کہا جاتا ہے۔ اس روایت میں کلالہ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میری وارث میری ہمشیرگان ہیں جو بے سہارا ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ترکے کو بھی کلالہ کہا جاتا ہے۔ اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام معلوم ہوئے: (الف)۔ رسول الله ﷺ کے دست مبارک کی برکت سے بیماری وغیرہ دورہوجاتی تھی۔ (ب)۔ بزرگوں کے دم وغیرہ سے بھی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ (ج)۔ بیماروں کی تیمارداری کرنا بہت بڑی فضیلت کا عمل ہے۔ (د)۔ بڑوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹوں کی تیمارداری کریں، ایساکرنا مسنون ہے۔ 3۔ آیت میراث سے مراد: ﴿ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ﴾ سے لے کر﴿وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ﴾ تک ہے۔ جیساکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الفرائض کے آغاز میں بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ﴾’’اگر کوئی موروث مرد یا عورت کلالہ ہواور اس کی ایک(اخیافی) بہن یا بھائی ہوتوان دونوں میں سے ہرایک کا چھٹا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ کلالہ کے متعلق یہ وضاحت حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کرنے پر نازل ہوئی تھی۔ اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جابر ؓ کی مذکورہ حالت کے پیش نظر سورہ نساء کی آخری آیت نازل ہوئی تھی، لیکن راجح بات امام بخاری ؒ کی بیان کردہ ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے محمد بن المنکدر کے واسطے سے، انھوں نے حضرت جابر ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول کریم ﷺ میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں بیمار تھا ایسا کہ مجھے ہوش تک نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، تو مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرا وارث کون ہو گا؟ میرا تو صرف ایک کلالہ وارث ہے۔ اس پر آیت میراث نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
کلالہ اس کو کہتے ہیں جس کا نہ باپ دادا ہو، نہ اس کی اولاد ہو۔ باب کی مناسبت اس سے ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے وضو کا بچا ہوا پانی جابر پر ڈالا۔ اگر یہ ناپاک ہوتا تو آپ ﷺ نہ ڈالتے۔ آیت یوں ہے: ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾(النساء: 176) تفصیلی ذکر کتاب التفسیر میں آئے گا۔ إن شاءاللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came to visit me while I was sick and unconscious. He performed ablution and sprinkled the remaining water on me and I became conscious and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! To whom will my inheritance go as I have neither ascendants nor descendants?" Then the Divine verses regarding Fara'id (inheritance) were revealed.