تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اس روایت میں وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سی عید تھی لیکن عنوان کا تقاضا ہے کہ اس سے مراد عید الاضحیٰ کا دن ہے، چنانچہ یزید بن زریع کی روایت میں اس کی صراحت ہے، یعنی جس دن روزہ رکھنے کی نذر مانی تھی اس دن اتفاق سے عید الاضحیٰ تھی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے دلائل کے تعارض کے پیش نظر صراحت کے ساتھ جواب دینے سے توقف فرمایا۔ (2) علامہ خطابی فرماتے ہیں: اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے: اگر کسی نے نذر مانی کہ جس دن فلاں آئے گا وہ روزہ رکھے گا، اور وہ عید کے دن آیا تو نہ روزہ رکھے اور نہ اس کی قضا ہی دے۔ بعض نے کہا کہ وہ عید کے دن روزہ نہ رکھے لیکن بعد میں اس کی قضا دے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ جہاں امر اور نہی دونوں جمع ہو جائیں وہاں نہی پر عمل کیا جائے گا، لہذا اس دن روزہ نہ رکھا جائے اور نہ اس کی قضا ہی دینا ضروری ہے۔ (فتح الباري:306/4) ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ نہی کو مقدم کرتے ہوئے اس دن کا روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو سوار ہونے کا حکم دیا تھا جس نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی تھی۔ اگر ایسے حالات میں نذر کا پورا کرنا ضروری ہوتا تو آپ اسے سواری استعمال کرنے کا حکم نہ دیتے۔ صورت مذکورہ میں بھی نذر کا پورا کرنا ضروری نہیں کیونکہ اس دن کا روزہ رکھنا جائز نہیں، لہذا وہ اپنی نذر کسی صورت میں پوری نہیں کرے گا۔ (فتح الباري:307/4)