باب: لگن‘ پیالے ‘لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To take a bath or perform ablution from a Mikhdab (utensil), a tumbler, or a wooden or stone pot)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
201.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے دیگر ازواج مطہرات سے تیمارداری کے لیے میرے گھر میں قیام کی اجازت چاہی، چنانچہ سب نے بخوشی اجازت دے دی۔ پھر نبی ﷺ (حضرت عائشہ کے گھر جانے کے لیے) دو آدمیوں کے سہارے اپنے پاؤں گھسیٹتے ہوئے نکلے۔ وہ دو آدمی حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے شخص تھے۔ راوی حدیث عبیداللہ کہتے ہیں: جب میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو یہ حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: تم جانتے ہو کہ وہ دوسرے شخص کون تھے؟ میں نے کہا: نہیں! تو انھوں نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے گھر داخل ہونے کے بعد، جب بیماری شدت اختیار کر گئی، تو فرمایا: ’’میرے اوپر سات مشک پانی ڈالو جن کے بند نہ کھولے گئے ہوں۔ شاید میں (تندرست ہو کر) لوگوں کو وصیت کر سکوں۔‘‘ پھر آپ کو ایک بڑے ٹب میں بٹھا دیا گیا جو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ ؓ کا تھا۔ پھر ہم آپ کے جسم مبارک پر ان مشکو ں کا پانی ڈالنے لگیں یہاں تک کہ آپ ہمیں اشارہ کرنے لگے کہ بس تم اپنا کام کر چکیں۔ پھر آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے۔
تشریح:
1۔ مخضب (ٹب یا لگن) ایک کھلے برتن کو کہتے ہیں جس میں کپڑے وغیرہ دھوئے جاتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کامقصود یہ ہے کہ اس قسم کے کھلے برتنوں میں بیٹھ کر غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اگرچہ اس میں استعمال شدہ پانی کے قطرے گرتے رہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک وضو اور غسل کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے۔ برتنوں کے متعلق کوئی پابندی نہیں، تمام برتن قابل استعمال ہیں۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کو سہارا دے کر لانے کے متعدد واقعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سہارا دینے والوں کے مختلف نام احادیث میں ذکر ہوئے ہیں، مثلاً: ام ایمن، بریرہ، نوبہ (حبشی غلام) ، فضل بن عباس ؓ ، اسامہ، علی بن ابی طالب اورحضرت عباس ؓ لیکن ان میں حضرت علی ؓ اورحضرت عباس ؓ پیش پیش تھے، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ کی خواہش کے پیش نظر حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کے سہارے آپ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر لایا گیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 665) اس وقت ام ایمن ؓ ، حضرت اسامہ ؓ اور حضرت فضل بن عباس نے بھی آپ کو سہارا دینے کی خدمات سرانجام دیں۔ پھر حضرت عائشہ ؓ کے گھر آنے کے بعد بیماری میں کچھ افاقہ ہوا تو نمازظہر کی ادائیگی کے لیے حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز حضرت ابوبکر ؓ کے پہلو میں بائیں جانب بیٹھ کر اد اکی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687) بعض روایات میں ہے کہ حضرت بریرہ اور نوبہ (حبشی غلام) کے سہارے برآمد ہوئے۔ غالباً انھوں نے گھر سے مسجد تک آپ کو سہارا دیا۔ پھر مسجد سے جائے نماز تک حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ نے سہارا دینے کی خدمات سرانجام دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ واقعہ افک میں حضرت علی ؓ کے جو تاثرات تھے۔ اس کی وجہ سے صدیقہ کائنات ؓ کے دل میں بشری تقاضے کے مطابق شکر رنجی ضرورتھی۔ اس کا اظہار اس صورت میں ہوا کہ آپ نے حضرت علی ؓ کا نام نہیں لیا، جیسا کہ روایت میں وضاحت ہے۔ اس کے متعلق جو تاویلات کی جاتی ہیں، ان پر دل مطمئن نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ( فتح الباري: 203/2) 3۔ دوران مرض میں رسول الله ﷺ کے غسل کرنے کے بھی متعدد واقعات ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے آئے تو عشاء کے وقت آپ نے دریافت فرمایا کہ آیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کیا گیا کہ وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ پھر حسب ارشاد ٹب میں پانی بھرا گیا، آپ نے غسل فرمایا۔ جب مسجد میں جانے لگے تو آپ بے ہوش ہو گئے، تین دفعہ ایسا ہوا۔ پھر آپ نے حضرت بلال ؓ کو بھیجا کہ ابوبکر ؓ نماز پڑھائیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687) پھر آپ نے ہفتہ یا اتوار کو سات مشکیں پانی کی لانے کے متعلق فرمایا، جیسا کہ حدیث الباب (198) میں ہے۔ آپ نے غسل فرمایا، پھر نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز ادا کی اورلوگوں کو وعظ ونصیحت فرمائی، جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4442) انہی دنوں جمعرات کےدن واقعہ قرطاس پیش آیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431) اس کی وضاحت ہم حدیث نمبر۔ 114 کے تحت کر آئے ہیں۔ 4۔ احادیث بخاری کے متعلق تشکیک پیدا کرنے کے لیے اصلاحی صاحب نے اس موقع پر بھی زہر اگلا ہے۔ امام زہریؒ کے متعلق ان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں: ’’ میرے نزدیک حدیث قرطاس زہری کا پھیلایا ہوا فتنہ ہے۔ یہ روایت (198) بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں پورا زہر موجود ہے۔ حدیث قرطاس میں زہری کا ہدف حضرت عمر ؓ ہیں۔ یہاں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے خلاف زہر اگلا گیا ہے۔ اس روایت میں مشکوں کا پانی مریض پر بہانے کا ٹونا بیان ہوا ہے، یہ بھی زہری کی حاشیہ آرائی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ عوامی خرافات کو دین بنا کر پیش کرنے میں بھی زہری کا بڑاحصہ ہے۔ ‘‘ ( تدبرحدیث:297/1) امام زہری ؒ حضرت امام مالک ؒ کے استاد اورامام بخاری ؒ کے نزدیک انتہائی قابل اعتماد شخصیت ہیں۔ محدثین عظام نے ان کے متعلق بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ علمی بنیادوں پر کسی شخصیت سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن بھونڈے انداز سے کسی پر کیچڑ اچھالنا بھلے مانس لوگوں کا کام نہیں۔ حضرت اصلاحی تو اللہ کے پاس اپنے کیے ہوئے کا پھل پا رہے ہوں گے، ہمارا ان کے متبعین سے سوال ہے کہ اسلاف کے متعلق اظہار خیالات کا یہی انداز ہونا چاہیے جو اصلاحی صاحب نے اختیار کیا ہے؟ حافط ابن حجر ؒ نے امام زہری ؒ کے متعلق پورے چار صفحات پر مشتمل ان کی ثقاہت کو بیان فرمایا ہے۔ فرماتےہیں: امام زہری ؒ بڑے بڑے ائمہ کرام میں سے ایک اور شام اورحجاز کے عالم حدیث ہیں۔ آپ نے پندرہ سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے علم حدیث روایت کیا ہے۔ حضرت لیث کہتے ہیں: میں نےامام زہری ؒ سے زیادہ علم حدیث رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ فرماتے ہیں: امام زہری ؒ کی صحبت اختیار کرو، کیونکہ سنت کا علم ان سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ (تهذیب التهذیب: 397/1) لیکن اصلاحی صاحب نے ان سےمروی احادیث کو عوامی خرافات کا نام دیا ہے۔ مزید لکھا ہے: ’’زہری ؒ کے متعلق بدگمانی ان کے زمانے میں بھی پائی جاتی تھی۔ آخر لوگ اتنے نابالغ تو نہ تھے کہ وہ کسی کی شرارت پر متنبہ نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالک ؒ جیسے بڑے آدمی کو بھی کئی روایات میں زہری کا نام حذف کرکے یہ کہنا پڑا کہ یہ روایت اس شخص کی ہے جس پر مجھے اعتماد ہے۔‘‘ ( تدبرحدیث: 297/1) امام مالک ؒ جیسے بڑے شخص کو تو اپنے شیخ پر پورا پورا اعتماد تھا، لیکن آپ حضرات ان پر بداعتمادی کا اظہار کر کے احادیث کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں۔ احادیث کے متعلق جو خطرناک راستہ اصلاحی صاحب نے اختیار کیا ہے وہ یقیناً ان کی باقیات سئیات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اصلاحی صاحب کو سات مشکیزے پانی لانے اورانھیں رسول اللہ ﷺ پر بہانے کے متعلق اعتراض ہے جسے انھوں نے عوامی خرافات کا نام دیا ہے۔ حالانکہ انھیں علم ہے کہ شریعت میں سات کی تعداد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، مثلاً: 1۔ آسمانوں کی تعداد سات ہے۔ 2۔ ہفتہ کے دن بھی سات ہیں۔ 3۔ اعضائے سجدہ بھی سات ہیں۔ 4۔ ایک طواف بیت اللہ کے اردگرد سات چکر لگانے سے پورا ہوتا ہے۔ 5۔ رمی جمرات کے لیے بھی سات کنکریاں استعمال ہوتی ہیں۔ 6۔ سعی کے لیے بھی صفا اورمرہ کے درمیان سات دفعہ آنا جانا پڑتاہے۔ 7۔ صبح صبح سات عجوہ کھجوریں کھانے سے انسان جادو اور زہر سے محفوظ رہتاہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5769) حضرت اصلاحی نے صحیح بخاری کی احادیث کو عوامی خرافات کا نام دیا ہے تاکہ لوگوں کے د لوں میں ان کے متعلق نفرت پیدا ہو، خاص طور پر امام زہری پر بد اعتمادی کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے: ’’اس کی مثالیں موطأ میں ’’العین حق‘‘ والی روایت اور سانپ نکالنے کی روایت میں موجود ہیں۔‘‘ ( تدبرحدیث :297/1) جن روایات کی طرف اصلاحی صاحب نے اشارہ کیا ہے اور انھیں عوامی خرافات سے تعبیر کیا ہے، ان میں پہلی روایت مسند احمد، سنن نسائی اور صحیح ابن حبان میں ہے کہ سہل بن حنیف ؓ کو عامر بن ربیعہ کی نظر لگ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عامر بن ربیعہ ؓ کو ہاتھ ، چہرہ، کہنیاں اور پاؤں کے اطراف، نیز داخلۃ الازار، یعنی تہ بند کے اندر کا بدن، ایک پیالے میں دھونے کا حکم دیا اور اسے سہل بن حنیف کے بدن پر بہا دیا گیا، اس طرح نظر بد کے اثرات ختم ہوگئے، موطأ امام مالک ؒ (الموطأ لإمام مالك: 116/2، طبع مؤسسة الرسالة) میں اس کی سند یوں ہے: (قال مالك عن محمد بن أبي أمامة ابن سهل) اس میں زہری ؒ کا نام نہیں۔ اسی طرح دوسری روایت (جو صحیح مسلم اور موطا وغیرہ میں ہے) جس میں ایک نوجوان کا ذکر ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور گھر میں سانپ دیکھ کر اسے نیزہ مارا، اس کی بیوی کا بیان ہے کہ مجھے پتہ نہیں چلا کہ پہلے میرا خاوند فوت ہوا یا سانپ پہلے مرا؟ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب گھرمیں سانپ نظر آئے تو اسے تین مرتبہ گھر سے نکل جانے کا حکم دو۔ اگرچلا جائے تو ٹھیک، بصورت دیگر اسے قتل کردو۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5839(2236) والموطأ للإمام مالك: 155، 156/2، طبع مؤسسة الرسالة) موطا امام مالک ؒ میں جو روایت ہے اسکی سند میں بھی زہری کا نام نہیں۔ لیکن جو انسان کسی کی مخالفت میں اندھا بہرہ ہوجاتا ہے، اسے ہر جگہ مخالف ہی نظر آتا ہے۔ اصلاحی صاحب نے امام زہری ؒ کی عوامی خرافات کے سلسلے میں ان دو روایات کا حوالہ دیا ہے، لیکن ان میں دور دورتک زہری کانشان تک نہیں ملتا۔ دراصل ان کےنزدیک کسی حدیث کے صحیح وضعیف ہونے کا مدار ان کی عقل پر ہے۔ اگران کی عقل فیصلہ کردے تو صحیح بصورت دیگر وہ ناقابل اعتبار ہے، خواہ بیان کرنے والے کتنے بڑے امام اور ثقات ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی وجہ سے ہم نے انھیں دورحاضر کے معتزلہ اورخوارج کا نام دیا ہے، کیونکہ ان کے ہاں بھی حدیث جانچنے کا یہی میعار تھا۔ نوٹ:۔ رسول اللہ ﷺ بیماری کی شدت کے بعد پانچ دن تک مسجد میں تشریف نہیں لے گئے، صرف نماز ظہر پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ حضرت ام فضل ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید مغرب کی نماز بھی آپ نے مسجد میں ادا کی ہے، لیکن سنن نسائی میں وضاحت ہے کہ آپ نے یہ نماز گھر میں ادا کی تھی اور اس میں سورہ مرسلات کی تلاوت فرمائی تھی۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 986) شدت بیماری کے پہلے دن نماز عشاء کے وقت مسجد میں جانے کے لیے غسل فرمایا، لیکن بے ہوشی کی وجہ سے نہ جا سکے، حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جمعرات کے دن واقعہ قرطاس پیش آیا۔ اس کے بعد ہفتہ یا اتوار نماز ظہر مسجد میں ادا کی۔ پیر کے دن پردہ اٹھا کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نماز باجماعت ادا کرتے ہوئے دیکھا تو خوش ہوئے اور مسکرائے، پھر پردہ ڈال دیا اور ظہر سے پہلے پہلے جان، جان آفرین کے حوالے کردی۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔ جمعے کے سلسلے میں تلاش بسیار کے باوجود کوئی روایت نہیں مل سکی کہ شدت بیماری کے دوران میں جمعہ کس نے پڑھایا؟ اگر کوئی صاحب علم اس کےمتعلق آگاہ ہو تو ہمیں مطلع فرماکر عند اللہ ماجور ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
198
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
198
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
198
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
198
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ وضو اورغسل کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ پانی پاک ہو۔اس کے لیے قطعا ً یہ شرط نہیں کہ پانی کی قسم کے برتن میں ہے اور وہ برتن کس دھات سے بنا ہوا ہے اگربرتن پاک ہے تو اس کا کوئی بھی نام ہو اور کسی بھی دھات سے بنا ہواہو،اس سے وضو اور غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔اس عنوان میں مخصب اور قدح بطور تخصیص نہیں بلکہ نوع کی تعمیم کےلیے بطور مثال ہیں جیسا کہ خشب اور حجارۃ کے الفاظ کو مادہ کی تعمیم کے لیے بطور مثال بیان کیا گیا ہے،یعنی برتن کا نام ٹب،لگن ،لوٹا وغیرہ،پھر وہ لکڑی ،پیتل،پتھر یا کسی اور معدنی دھات کا ہواگر وہ پاک ہے اور تفاخر مقصود نہیں تواس میں پاک پانی سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔اس عنوان کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اسلاف،عبادات کے سلسلے میں تواضع اور عجزوانکسار کا بہت خیال رکھتے تھے،اس لیے وضو اورغسل کے لیے ایسے برتنوں کا انتخاب کرتے جن میں تواضع کا اظہار ہوتا ہو۔اس کےلیے وہ دو چیزوں کا خیال رکھتے:(الف)۔برتن چھوٹا ہو۔(ب)۔مٹی یا پتھر کا بنا ہوا ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تواضع پر عمل کرنا،باعث فضیلت ضرور ہے لیکن جواز کا معاملہ اس سے زیادہ وسیع ہے لہذا وجو یا غسل کے لیے ہرطرح کا اور ہرقسم کا برتن استعمال ہوسکتا ہے،نیز برتن سے وضو کرنے کی دوصورتیں ہیں:(الف)۔ اس میں ہاتھ ڈال کرپانی لیا جائے اور اس سے وضو کیا جائے۔(ب)۔اس برتن کو جھکا کر پانی حاصل کیا جائے اور وضو کیا جائے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں پہلی صورت کو بیان کیا ہے اورآئندہ باب میں دوسری صورت کو بیان کریں گے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے دیگر ازواج مطہرات سے تیمارداری کے لیے میرے گھر میں قیام کی اجازت چاہی، چنانچہ سب نے بخوشی اجازت دے دی۔ پھر نبی ﷺ (حضرت عائشہ کے گھر جانے کے لیے) دو آدمیوں کے سہارے اپنے پاؤں گھسیٹتے ہوئے نکلے۔ وہ دو آدمی حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے شخص تھے۔ راوی حدیث عبیداللہ کہتے ہیں: جب میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو یہ حدیث سنائی تو انھوں نے کہا: تم جانتے ہو کہ وہ دوسرے شخص کون تھے؟ میں نے کہا: نہیں! تو انھوں نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے گھر داخل ہونے کے بعد، جب بیماری شدت اختیار کر گئی، تو فرمایا: ’’میرے اوپر سات مشک پانی ڈالو جن کے بند نہ کھولے گئے ہوں۔ شاید میں (تندرست ہو کر) لوگوں کو وصیت کر سکوں۔‘‘ پھر آپ کو ایک بڑے ٹب میں بٹھا دیا گیا جو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت حفصہ ؓ کا تھا۔ پھر ہم آپ کے جسم مبارک پر ان مشکو ں کا پانی ڈالنے لگیں یہاں تک کہ آپ ہمیں اشارہ کرنے لگے کہ بس تم اپنا کام کر چکیں۔ پھر آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ مخضب (ٹب یا لگن) ایک کھلے برتن کو کہتے ہیں جس میں کپڑے وغیرہ دھوئے جاتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کامقصود یہ ہے کہ اس قسم کے کھلے برتنوں میں بیٹھ کر غسل کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اگرچہ اس میں استعمال شدہ پانی کے قطرے گرتے رہتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک وضو اور غسل کے لیے پانی کا پاک ہونا ضروری ہے۔ برتنوں کے متعلق کوئی پابندی نہیں، تمام برتن قابل استعمال ہیں۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کو سہارا دے کر لانے کے متعدد واقعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سہارا دینے والوں کے مختلف نام احادیث میں ذکر ہوئے ہیں، مثلاً: ام ایمن، بریرہ، نوبہ (حبشی غلام) ، فضل بن عباس ؓ ، اسامہ، علی بن ابی طالب اورحضرت عباس ؓ لیکن ان میں حضرت علی ؓ اورحضرت عباس ؓ پیش پیش تھے، چنانچہ جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو آپ کی خواہش کے پیش نظر حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کے سہارے آپ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر لایا گیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 665) اس وقت ام ایمن ؓ ، حضرت اسامہ ؓ اور حضرت فضل بن عباس نے بھی آپ کو سہارا دینے کی خدمات سرانجام دیں۔ پھر حضرت عائشہ ؓ کے گھر آنے کے بعد بیماری میں کچھ افاقہ ہوا تو نمازظہر کی ادائیگی کے لیے حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز حضرت ابوبکر ؓ کے پہلو میں بائیں جانب بیٹھ کر اد اکی۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687) بعض روایات میں ہے کہ حضرت بریرہ اور نوبہ (حبشی غلام) کے سہارے برآمد ہوئے۔ غالباً انھوں نے گھر سے مسجد تک آپ کو سہارا دیا۔ پھر مسجد سے جائے نماز تک حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ نے سہارا دینے کی خدمات سرانجام دیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ واقعہ افک میں حضرت علی ؓ کے جو تاثرات تھے۔ اس کی وجہ سے صدیقہ کائنات ؓ کے دل میں بشری تقاضے کے مطابق شکر رنجی ضرورتھی۔ اس کا اظہار اس صورت میں ہوا کہ آپ نے حضرت علی ؓ کا نام نہیں لیا، جیسا کہ روایت میں وضاحت ہے۔ اس کے متعلق جو تاویلات کی جاتی ہیں، ان پر دل مطمئن نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ( فتح الباري: 203/2) 3۔ دوران مرض میں رسول الله ﷺ کے غسل کرنے کے بھی متعدد واقعات ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے آئے تو عشاء کے وقت آپ نے دریافت فرمایا کہ آیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ عرض کیا گیا کہ وہ آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ پھر حسب ارشاد ٹب میں پانی بھرا گیا، آپ نے غسل فرمایا۔ جب مسجد میں جانے لگے تو آپ بے ہوش ہو گئے، تین دفعہ ایسا ہوا۔ پھر آپ نے حضرت بلال ؓ کو بھیجا کہ ابوبکر ؓ نماز پڑھائیں۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 687) پھر آپ نے ہفتہ یا اتوار کو سات مشکیں پانی کی لانے کے متعلق فرمایا، جیسا کہ حدیث الباب (198) میں ہے۔ آپ نے غسل فرمایا، پھر نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز ادا کی اورلوگوں کو وعظ ونصیحت فرمائی، جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4442) انہی دنوں جمعرات کےدن واقعہ قرطاس پیش آیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4431) اس کی وضاحت ہم حدیث نمبر۔ 114 کے تحت کر آئے ہیں۔ 4۔ احادیث بخاری کے متعلق تشکیک پیدا کرنے کے لیے اصلاحی صاحب نے اس موقع پر بھی زہر اگلا ہے۔ امام زہریؒ کے متعلق ان کے خیالات ملاحظہ فرمائیں: ’’ میرے نزدیک حدیث قرطاس زہری کا پھیلایا ہوا فتنہ ہے۔ یہ روایت (198) بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں پورا زہر موجود ہے۔ حدیث قرطاس میں زہری کا ہدف حضرت عمر ؓ ہیں۔ یہاں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے خلاف زہر اگلا گیا ہے۔ اس روایت میں مشکوں کا پانی مریض پر بہانے کا ٹونا بیان ہوا ہے، یہ بھی زہری کی حاشیہ آرائی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ عوامی خرافات کو دین بنا کر پیش کرنے میں بھی زہری کا بڑاحصہ ہے۔ ‘‘ ( تدبرحدیث:297/1) امام زہری ؒ حضرت امام مالک ؒ کے استاد اورامام بخاری ؒ کے نزدیک انتہائی قابل اعتماد شخصیت ہیں۔ محدثین عظام نے ان کے متعلق بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ علمی بنیادوں پر کسی شخصیت سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن بھونڈے انداز سے کسی پر کیچڑ اچھالنا بھلے مانس لوگوں کا کام نہیں۔ حضرت اصلاحی تو اللہ کے پاس اپنے کیے ہوئے کا پھل پا رہے ہوں گے، ہمارا ان کے متبعین سے سوال ہے کہ اسلاف کے متعلق اظہار خیالات کا یہی انداز ہونا چاہیے جو اصلاحی صاحب نے اختیار کیا ہے؟ حافط ابن حجر ؒ نے امام زہری ؒ کے متعلق پورے چار صفحات پر مشتمل ان کی ثقاہت کو بیان فرمایا ہے۔ فرماتےہیں: امام زہری ؒ بڑے بڑے ائمہ کرام میں سے ایک اور شام اورحجاز کے عالم حدیث ہیں۔ آپ نے پندرہ سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے علم حدیث روایت کیا ہے۔ حضرت لیث کہتے ہیں: میں نےامام زہری ؒ سے زیادہ علم حدیث رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ عمر بن عبدالعزیز ؒ فرماتے ہیں: امام زہری ؒ کی صحبت اختیار کرو، کیونکہ سنت کا علم ان سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا۔ (تهذیب التهذیب: 397/1) لیکن اصلاحی صاحب نے ان سےمروی احادیث کو عوامی خرافات کا نام دیا ہے۔ مزید لکھا ہے: ’’زہری ؒ کے متعلق بدگمانی ان کے زمانے میں بھی پائی جاتی تھی۔ آخر لوگ اتنے نابالغ تو نہ تھے کہ وہ کسی کی شرارت پر متنبہ نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالک ؒ جیسے بڑے آدمی کو بھی کئی روایات میں زہری کا نام حذف کرکے یہ کہنا پڑا کہ یہ روایت اس شخص کی ہے جس پر مجھے اعتماد ہے۔‘‘ ( تدبرحدیث: 297/1) امام مالک ؒ جیسے بڑے شخص کو تو اپنے شیخ پر پورا پورا اعتماد تھا، لیکن آپ حضرات ان پر بداعتمادی کا اظہار کر کے احادیث کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کر رہے ہیں۔ احادیث کے متعلق جو خطرناک راستہ اصلاحی صاحب نے اختیار کیا ہے وہ یقیناً ان کی باقیات سئیات میں اضافے کا باعث ہوگا۔ اصلاحی صاحب کو سات مشکیزے پانی لانے اورانھیں رسول اللہ ﷺ پر بہانے کے متعلق اعتراض ہے جسے انھوں نے عوامی خرافات کا نام دیا ہے۔ حالانکہ انھیں علم ہے کہ شریعت میں سات کی تعداد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، مثلاً: 1۔ آسمانوں کی تعداد سات ہے۔ 2۔ ہفتہ کے دن بھی سات ہیں۔ 3۔ اعضائے سجدہ بھی سات ہیں۔ 4۔ ایک طواف بیت اللہ کے اردگرد سات چکر لگانے سے پورا ہوتا ہے۔ 5۔ رمی جمرات کے لیے بھی سات کنکریاں استعمال ہوتی ہیں۔ 6۔ سعی کے لیے بھی صفا اورمرہ کے درمیان سات دفعہ آنا جانا پڑتاہے۔ 7۔ صبح صبح سات عجوہ کھجوریں کھانے سے انسان جادو اور زہر سے محفوظ رہتاہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5769) حضرت اصلاحی نے صحیح بخاری کی احادیث کو عوامی خرافات کا نام دیا ہے تاکہ لوگوں کے د لوں میں ان کے متعلق نفرت پیدا ہو، خاص طور پر امام زہری پر بد اعتمادی کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے: ’’اس کی مثالیں موطأ میں ’’العین حق‘‘ والی روایت اور سانپ نکالنے کی روایت میں موجود ہیں۔‘‘ ( تدبرحدیث :297/1) جن روایات کی طرف اصلاحی صاحب نے اشارہ کیا ہے اور انھیں عوامی خرافات سے تعبیر کیا ہے، ان میں پہلی روایت مسند احمد، سنن نسائی اور صحیح ابن حبان میں ہے کہ سہل بن حنیف ؓ کو عامر بن ربیعہ کی نظر لگ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے عامر بن ربیعہ ؓ کو ہاتھ ، چہرہ، کہنیاں اور پاؤں کے اطراف، نیز داخلۃ الازار، یعنی تہ بند کے اندر کا بدن، ایک پیالے میں دھونے کا حکم دیا اور اسے سہل بن حنیف کے بدن پر بہا دیا گیا، اس طرح نظر بد کے اثرات ختم ہوگئے، موطأ امام مالک ؒ (الموطأ لإمام مالك: 116/2، طبع مؤسسة الرسالة) میں اس کی سند یوں ہے: (قال مالك عن محمد بن أبي أمامة ابن سهل) اس میں زہری ؒ کا نام نہیں۔ اسی طرح دوسری روایت (جو صحیح مسلم اور موطا وغیرہ میں ہے) جس میں ایک نوجوان کا ذکر ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور گھر میں سانپ دیکھ کر اسے نیزہ مارا، اس کی بیوی کا بیان ہے کہ مجھے پتہ نہیں چلا کہ پہلے میرا خاوند فوت ہوا یا سانپ پہلے مرا؟ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب گھرمیں سانپ نظر آئے تو اسے تین مرتبہ گھر سے نکل جانے کا حکم دو۔ اگرچلا جائے تو ٹھیک، بصورت دیگر اسے قتل کردو۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5839(2236) والموطأ للإمام مالك: 155، 156/2، طبع مؤسسة الرسالة) موطا امام مالک ؒ میں جو روایت ہے اسکی سند میں بھی زہری کا نام نہیں۔ لیکن جو انسان کسی کی مخالفت میں اندھا بہرہ ہوجاتا ہے، اسے ہر جگہ مخالف ہی نظر آتا ہے۔ اصلاحی صاحب نے امام زہری ؒ کی عوامی خرافات کے سلسلے میں ان دو روایات کا حوالہ دیا ہے، لیکن ان میں دور دورتک زہری کانشان تک نہیں ملتا۔ دراصل ان کےنزدیک کسی حدیث کے صحیح وضعیف ہونے کا مدار ان کی عقل پر ہے۔ اگران کی عقل فیصلہ کردے تو صحیح بصورت دیگر وہ ناقابل اعتبار ہے، خواہ بیان کرنے والے کتنے بڑے امام اور ثقات ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی وجہ سے ہم نے انھیں دورحاضر کے معتزلہ اورخوارج کا نام دیا ہے، کیونکہ ان کے ہاں بھی حدیث جانچنے کا یہی میعار تھا۔ نوٹ:۔ رسول اللہ ﷺ بیماری کی شدت کے بعد پانچ دن تک مسجد میں تشریف نہیں لے گئے، صرف نماز ظہر پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ حضرت ام فضل ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید مغرب کی نماز بھی آپ نے مسجد میں ادا کی ہے، لیکن سنن نسائی میں وضاحت ہے کہ آپ نے یہ نماز گھر میں ادا کی تھی اور اس میں سورہ مرسلات کی تلاوت فرمائی تھی۔ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 986) شدت بیماری کے پہلے دن نماز عشاء کے وقت مسجد میں جانے کے لیے غسل فرمایا، لیکن بے ہوشی کی وجہ سے نہ جا سکے، حضرت ابوبکرصدیق ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ جمعرات کے دن واقعہ قرطاس پیش آیا۔ اس کے بعد ہفتہ یا اتوار نماز ظہر مسجد میں ادا کی۔ پیر کے دن پردہ اٹھا کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نماز باجماعت ادا کرتے ہوئے دیکھا تو خوش ہوئے اور مسکرائے، پھر پردہ ڈال دیا اور ظہر سے پہلے پہلے جان، جان آفرین کے حوالے کردی۔ إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔ جمعے کے سلسلے میں تلاش بسیار کے باوجود کوئی روایت نہیں مل سکی کہ شدت بیماری کے دوران میں جمعہ کس نے پڑھایا؟ اگر کوئی صاحب علم اس کےمتعلق آگاہ ہو تو ہمیں مطلع فرماکر عند اللہ ماجور ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی تحقیق حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ جب رسول کریم ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ ﷺ نے اپنی (دوسری) بیویوں سے اس بات کی اجازت لے لی کہ آپ کی تیمارداری میرے ہی گھر کی جائے۔ انھوں نے آپ کو اجازت دے دی، (ایک روز) رسول کریم ﷺ دو آدمیوں کے درمیان (سہارا لے کر) گھر سے نکلے۔ آپ کے پاؤں (کمزوری کی وجہ سے) زمین پر گھسٹتے جاتے تھے، حضرت عباس ؓ اور ایک آدمی کے درمیان (آپ باہر) نکلے تھے۔ عبیداللہ (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عباس ؓ کو سنائی، تو وہ بولے، تم جانتے ہو دوسرا آدمی کون تھا، میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ کہنے لگے وہ علی ؓ تھے۔ پھر حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی تھیں کہ جب نبی کریم ﷺ اپنے گھر میں داخل ہوئے اور آپ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ نے فرمایا میرے اوپر ایسی سات مشکوں کا پانی ڈالو، جن کے سربند نہ کھولے گئے ہوں۔ تا کہ میں (سکون کے بعد) لوگوں کو کچھ وصیت کروں۔ (چنانچہ) آپ کو حضرت حفصہ رسول اللہ ﷺ کی (دوسری) بیوی کے لگن میں (جو تانبے کا تھا) بٹھا دیا گیا اور ہم نے آپ پر ان مشکوں سے پانی بہانا شروع کیا۔ جب آپ ہم کو اشارہ فرمانے لگے کہ بس اب تم نے اپنا کام پورا کر دیا تو اس کے بعد آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
بعض تیز بخاروں میں ٹھنڈے پانی سے مریض کو غسل دلانا بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ آج کل برف بھی ایسے مواقع پر سر اور جسم پر رکھی جاتی ہے۔ باب میں جن جن برتنوں کا ذکر تھا احادیث مذکورہ میں ان سب سے وضو کرنا ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): When the ailment of the Prophet (ﷺ) became aggravated and his disease became severe, he asked his wives to permit him to be nursed (treated) in my house. So they gave him the permission. Then the Prophet (ﷺ) came (to my house) with the support of two men, and his legs were dragging on the ground, between 'Abbas, and another man." 'Ubaid-Ullah (RA) (the sub narrator) said, "I informed 'Abdullah bin 'Abbas (RA) of what 'Aisha (RA) said. Ibn 'Abbas (RA) said: 'Do you know who the other man was?' I replied in the negative. Ibn 'Abbas (RA) said, 'He was 'Ali (bin Abi Talib)." 'Aisha (RA) further said, "When the Prophet (ﷺ) came to my house and his sickness became aggravated he ordered us to pour seven skins full of water on him, so that he might give some advice to the people. So he was seated in a Mikhdab (brass tub) belonging to Hafsah (RA), the wife of the Prophet (ﷺ). Then, all of us started pouring water on him from the water skins till he beckoned to us to stop and that we have done (what he wanted us to do). After that he went out to the people."