تشریح:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہےکہ پانی پیالے میں ہو یا طشت میں یا کسی بھی برتن میں، لیکن اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے جو وضو کے لیے کافی ہو، آپ نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ وضو کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا عام معمول تھا کہ ایک مُد پانی سے وضو فرما لیتے تھے، یعنی اکثر طور پر وضو کے لیے پانی کی اتنی مقدارکفایت کرجاتی ہے۔ اسراف سے اجتناب کرتے ہوئے اس سے کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک مُد سے بھی کم پانی سے وضو کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت ام عمارہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن لایاگیا جس میں دو تہائی مد کے برابر پانی تھا۔ آپ نے اس سے وضو فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 94) واضح رہے کہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق صاع کا وزن 2 کلو100 گرام ہے۔اجناس کے اعتبار سے اس وزن میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ صاع کے متعلق جدید اعشاری نظام کے مطابق اس کا ٹھیک ٹھیک وزن ہم صدقۃ الفطر کے ابواب میں بیان کریں گے۔ وضو اورغسل کے لیے اشخاص و حالات کے پیش نظر پانی کی مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ بہرصورت اس میں اسراف کرنا اور بلاضرورت پانی بہانا درست نہیں، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کتاب میں لکھا ہے کہ اہل علم نے وضو میں اسراف کو ناپسند فرمایا ہے اور اس امر کوبھی مکروہ قراردیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تجاوز کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو اور غسل کے متعلق جو مقداریں مروی ہیں، وہ سب تقریبی ہیں تجدید نہیں، البتہ اصلاحی صاحب کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مد دو کلو کے لگ بھگ ہے۔ (تدبر حدیث 299/1) کیونکہ ایک مد میں 1۔33 رطل ہوتے ہیں۔ ایک رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے۔ گویا ایک مد میں ایک سو بیس مثقال ہوئے ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوتا ہے اس طرح ایک مد کے 540 ماشے ہوتے ہیں چونکہ ایک تولہ میں بارہ ماشے ہوتے ہیں لہذا بارہ پر تقسیم کرنے سے 45 تولے وزن بنتاہے۔ جو ایک چھٹانک پانچ تولے ہوتے ہیں، اس لیے اس کا وزن 9 چھٹانک بنتا ہے۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق 525 گرام وزن بننا ہے۔اصلاحی صاحب کی حساب دانی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ مد کسی صورت میں دو کلو کے لگ بھگ نہیں بنتا۔