تشریح:
(1) صحیح بخاری کی اس روایت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اعتکاف روزے کے بغیر صحیح ہے کیونکہ رات روزے کا محل نہیں۔ اگر روزہ شرط ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت عمر ؓ کو حکم دیتے کہ روزہ رکھ کر اعتکاف کریں، لیکن اس روایت سے صرف رات کے وقت اعتکاف کرنے کا استدلال محل نظر ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک دن کے اعتکاف کی نذر مانی تھی۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:4294(1656)) ابن حبان نے کہا ہے: دونوں روایات صحیح ہیں کیونکہ حضرت عمر ؓ نے ایک دن اور ایک رات کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی۔ جس نے رات کا ذکر کیا اس نے ضمناً دن کا ارادہ کیا ہے اور جس نے صرف دن کا ذکر کیا ہے اس کے ذہن میں رات کا ذکر ہے کیونکہ رات دن کے تابع ہوتی ہے۔ (2) بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے جب رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ ان پر اعتکاف ہے تو آپ نے انہیں حکم دیا کہ اعتکاف کریں اور روزہ رکھیں۔ لیکن یہ روایت عبداللہ بن بدیل راوی کی وجہ سے قابل استدلال نہیں۔ (فتح الباري:349/4) البتہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے بعد مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الاعتکاف، حدیث:2042) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک رات سے زیادہ اعتکاف نہیں کیا اور اس اعتکاف میں روزہ بھی نہیں تھا۔ (فتح الباري:349/4)