قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى{فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ} [الجمعة: 11]،)

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ: {لاَ تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ} [النساء: 29]

2049. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ فَآخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ سَعْدٌ ذَا غِنًى فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أُقَاسِمُكَ مَالِي نِصْفَيْنِ وَأُزَوِّجُكَ قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ فَمَا رَجَعَ حَتَّى اسْتَفْضَلَ أَقِطًا وَسَمْنًا فَأَتَى بِهِ أَهْلَ مَنْزِلِهِ فَمَكَثْنَا يَسِيرًا أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ فَجَاءَ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْيَمْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ مَا سُقْتَ إِلَيْهَا قَالَ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

 اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” تم لوگ ایک دوسرے کا مال غلط طریقوںسے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ تمہارے درمیان کوئی تجارت کا معاملہ ہو تو آپس کی رضامندی کے ساتھ ( معاملہ ٹھیک ہے )۔ “تشریح : بیوع بیع کی جمع ہے جو باب ضرب یضرب سے معتل یائی ہے جس کے معنی خرید و فروخت کے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی اللہ اور اس کے سچے رسول ﷺ نے بہت سی پاکیزہ ہدایات دی ہیں۔ بیچنے والوں کو عام طور پر لفظ تاجر سے یاد کیا جاتا ہے۔ قیس بن ابی غزرہ سے روایت ہے قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و نحن نسمی السماسرۃ فقال یا معشر التجار و فی روایۃ ابی داود فمر بنا النبی ﷺ فسمانا باسم ہو احسن منہ فقال یا معشر التجار ان الشیطان و الاثم یحضران البیع فشوبوا بیعکم بالصدقۃ ( رواہ الترمذی ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں پر گزرے جب کہ عام طور پر ہم کو لفظ سماسرہ ( سوداگران ) سے پکا رجاتا تھا۔ آپ نے ہم کو بہتر نئے نام سے موسوم فرمایا، اور یوں ارشاد ہوا کہ ”اے تاجروں کی جماعت بے شک شیطان اور گناہ خرید وفروخت میں حاضر ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے بیع کے ساتھ صدقہ خیرات کو بھی شامل کرلو، تاکہ ان اغلاط کا کچھ کفارہ بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتا رہے ! تجارت کی فضیلت میں حضرت ابوسعید ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا التاجر الصدوق الامین مع النبیین و الصدیقین و الشہداء ( رواہ الترمذی ) امانت اور صداقت کے ساتھ تجارت کرنے والا مسلمان قیامت کے دن انبیاءاور صدیقین اور شہداءکے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اس لیے کہ امانت اور دیانت کے ساتھ تجارت کرنا بھی اتنا ہی کٹھن کام ہے جتنا کہ انبیاءو صدیقین اور شہداءکا مشن کٹھن ہوتا ہے۔ عن اسماعیل بن عبید بن رفاعۃ عن ابیہ عن جدہ انہ خرج مع النبی ﷺم الی المصلی فرای الناس یتبایعون فقال یا معشر التجار فاستجابوا لرسول اللہﷺ و رفعوا اعناقہم و ابصارہم الیہ فقال ان التجار یبعثون یوم القیامۃ فجاراً الا من اتقی و بر و صدق ( رواہ الترمذی ) یعنی ایک دن آنحضرتﷺ نماز کے لیے نکلے کہ آپ نے راستے میں خرید و فروخت کرنے والوں کو دیکھا فرمایا کہ اے تاجروں کی جماعت ! ان سب نے آ پ کی طرف اپنی گردنوں اور آنکھوں کو اٹھایا۔ اور آپ کی آواز پر لبیک کہا۔ آپ نے فرمایا کے بے شک تاجر لوگ قیامت کے دن فاسق و فاجر لوگوں میں اٹھائے جائیں گے۔ مگر جس نے اس پیشہ کو اللہ کے خوف کے تحت سچائی اور نیک شعاری کے ساتھ انجام دیا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، نہ ان کو گناہ سے پاک کرے گا اور ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہوگا۔ ان میں اول نمبر احسان جتلانے والا، دوسرے نمبر پر اپنے پاجامہ تہبند کو فخریہ ٹخنوں سے نیچے گھیسٹنے والا، تیسرا اپنے مال کو جھوٹی قسمیں کاکھا کر فروخت کرنے والا۔ حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری مرحوم فرماتے ہیں قال القاضی لما کان من دیدن التجار التدلیس فی المعاملات و التہالک علی تزویج السلع بما تیسر لہم من الایمان الکاذبۃ و نحوہا حکم علیم بالفجور و استثنی منہم من اتقی المحارم و بر فی یمینہ و صدق فی حدیثہ و الی ہذا ذہب الشارحون و حملوا الفجور علی اللغو والحلف کذا فی المرقاۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی قاضی نے کہا کہ معاملات میں دھوکا دینا اور مال نکالنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھا کھا کر ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا تاجروں کا عام شیوہ ہے۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے ان پر فاجر ہونے کا حکم فرمایا، مگر ان کو مستثنیٰ فرمایا جو حرام سے بچیں اور قسم میں سچائی کو سامنے رکھیں۔ اور اکثر شارح ادھر ہی گئے ہیں کہ فجور سے لغویات اور جھوٹی قسم کھانا مرا دہیں۔

2049.

حضرت انس  ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف  ؓ مدینہ طیبہ آئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے اور حضرت سعد بن ربیع انصاری  ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کردیا۔ حضرت سعد  مالدار تھے، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف  ؓ سے کہا: میں تجھے اپنا مال آدھا آدھا تقسیم کردیتا ہوں، اس کے علاوہ آپ کی شادی کا بھی بندوبست کرتا ہوں۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف  نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارےاہل وعیال اور مال واسباب میں برکت فرمائے، مجھے بازار کا راستہ بتاؤ، چنانچہ وہ منڈی سے واپس نہ آئے حتیٰ کہ پنیر اور گھی بطور نفع حاصل کرلیا اور وہ لے کر اپنے گھر والوں کے پاس آئے۔ ہم چند دن ٹھہرے یاجس قدر اللہ کو منظور تھا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف  ؓ آئے اور ان پر رنگ دار خوشبو لگی ہوئی تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’تمہارا کیا حال ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے ایک انصاری خاتون سے نکاح کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کا حق مہر کیا رکھا ہے۔‘‘ عرض کیا: گٹھلی بھر سونا یاکہا کہ گٹھلی کا وزن سونا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی ہو۔‘‘