تشریح:
(1) اگر شکار کے جانور کو تیر عرض کے بل لگے گا تو وہ چوٹ لگنے سے مرجائے گا۔قرآن کریم نے چوٹ سے مرنے والے جانور کو حرام قرار دیا ہے،اس بنا پر عرض کے بل تیر کی چوٹ سے مرنے والا جانور بھی حرام ہے۔(2) عربوں کے ہاں شکاری کتوں کو سدھانے کا دستور تھا۔شریعت اسلامیہ نے اجازت دی ہے کہ اگر سدھائے ہوئے کتے کو بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے اور وہ شکار پکڑ لے، اگر مالک کے پہنچنے سے پہلے پہلے شکار مرجائے تو وہ جانور حلال اور اس کا کھانا جائز ہے اور جس کتے پر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس کا مارا ہوا شکار حرام اور مردار ہے لیکن اگر شکاری کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شامل ہوجائے اور شکار بھی مرا ہوا ملے تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جانور کس کتے نے مارا ہے،یعنی دوسرے کتے کی موجودگی شبہ کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شبہ کو دفع کرنے کے لیے ایسا شکار کھانے سے منع فرمایا ہے۔(3)اس سے معلوم ہوا کہ شبہ کی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔دراصل ایسے موقع پر ہر چیز کی اصل کو دیکھا جاتا ہے کہ تحریم ہے یا اباحت یا مشکوک،شکار کے جانور کو ذبح سے پہلے کھانا حرام ہے۔جب اس کے متعلق شک پڑ جائے کہ اس پر بسم اللہ پڑھی گئی تھی یا نہیں تو ایسے جانور کی حرمت ، یقین کے بغیر ختم نہیں ہوگی۔حضرت عدی بن حاتم ؓ کی اس حدیث سے اسی اصل کو ثابت کیا گیا ہے۔والله أعلم.