تشریح:
(1)دراصل مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی اعتبار سے بھی مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھی۔مہاجرین کی آباد کاری کے علاوہ کفار مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کررکھی تھی۔اس بنا پر غلہ کم یاب بھی تھا اور گرانی بھی بہت تھی۔انھی ایام میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبۂ جمعہ دے رہے تھے کہ شام سے غلے اور اناج کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ آپہنچا ۔انھوں نے اپنی آمد کی اطلاع طبلے بجا کردی۔خطبہ سننے والے مسلمان بھی، محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ بک جائے گا، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے تو مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔اس آیت کریمہ میں میٹھی زبان سے عتاب کیا گیا کہ قافلے والے تمھارے رازق تو نہ تھے، رزق کے اسباب مہیا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا تمھیں آئندہ ایسی باتوں سے بچنا چاہیے ۔چونکہ نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں شمار ہوتا ہے، اس لیے حدیث میں خطبے کی سماعت کرنے والوں کو نماز پڑھنے والے کہا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ تجارت اگرچہ اچھی چیز ہے کیونکہ اس کا تعلق کسب حلال سے ہے لیکن کبھی یہ مذموم بھی ہوجاتی ہے جب اس سے اہم اور ضروری چیز پر اسے مقدم کیا جائے۔چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ آخر نماز تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے مگر وہ اس اہم اور ضروری امر کو چھوڑ کر تجارت کی طرف چلے گئے، اس لیے یہ تجارت ان کے لیے عتاب کا سبب بن گئی۔پوری آیت کا ترجمہ اس طرح ہے: ’’اور جب انھوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو ادھر بھاگ گئے اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ کہہ دیجیے!جو اللہ کے پاس ہے وہ اس تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔'‘‘ (الجمعة:11:62)