باب:اس بارے میں کہ بکری کا گوشت اورستو کھا کرنیا وضو نہ کرنا ثابت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Not repeating ablution after eating mutton and As-Sawiq)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
”اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے گوشت کھایا اور نیا وضو نہیں کیا“۔
211.
حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانے سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے چھری رکھ دی، نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں کیا۔
تشریح:
1۔ عنوان میں دو چیزیں ہیں بکری کا گوشت اور ستو، امام بخاری ؒ نے دو حدیثیں ذکر کی ہیں، لیکن کسی ایک میں بھی ستو کا ذکر نہیں۔ دراصل نصوص سے مسائل کا استنباط کئی ایک طریقوں سے ہوتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اس مسئلے میں واضح طور پر ذکر ہو۔ اسے عبارۃ النص کہا جاتا ہے۔ بکری کے گوشت کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنا عبارۃ النص سے ثابت کیا ہے۔ بعض دفعہ الفاظ سے براہ راست نہیں بلکہ ان کی رہنمائی میں مسئلے کا استنباط کیا جاتا ہے۔ اسے دلالۃ النص کہا جاتا ہے۔ ستو استعمال کرنے کے بعد وضو نہ کرنا دلالۃ النص سے ثابت ہے۔ وہ اس طرح کہ گوشت میں چکناہٹ ہوتی ہے، جب آپ نے چکناہٹ والی چیز استعمال کرنے کے بعد وضو نہیں کیا تو ستو جن میں چکناہٹ نہیں ہوتی ان کے استعمال کے بعد بدرجہ اولیٰ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھانا جائز ہے۔ چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب قطع اللحم بالسكين) ’’گوشت کا چھری سے کاٹنا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، باب: 20) لیکن حضرت عائشہ ؓ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھری سے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ کیونکہ عجمی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث:3778) اس کی تطبیق یہ ہے کہ منع کی یہ حدیث صحیح نہیں، بلکہ امام ابن جوزی ؓ نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؓ نے لکھا ہے کہ ضرورت کے پیش نظر چھری وغیرہ کا استعمال درست ہے، لیکن بلاوجہ چھری سے کاٹ کاٹ کر کھانا یہ اعاجم اور عیش پسند لوگوں کے ساتھ تشبیہ ہے۔ جسے شریعت نے پسند نہیں کیا۔ (فتح الباري:407/1) چھری کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب گوشت اچھی طرح پکا ہوا نہ ہو، یعنی سخت ہو یا اس کے ٹکڑے بڑے بڑے ہوں، تو ایسے حالات میں گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھایا جا سکتا ہے، البتہ ہمیشہ کے لیے عادت بنا لینا عجمیوں کا طریقہ ہے۔ قاضی عیاض، ملا علی قاری اور امام بیہقی ؒ نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ 3۔ حدیث میں ہے کہ جب رات کا کھانا سامنے آ جائے اور نماز کا وقت بھی ہو تو پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ پھراطمینان سے نماز پڑھی جائے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ کھانے کے متعلق یہ ہدایت مقرر امام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔ مسجد کا مقرر امام اس سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ اس کے کھانے میں مشغولیت کی وجہ سے مسجد کے تمام نمازیوں کو انتظار کی تکلیف اٹھانی پڑے گی اور نماز میں بھی تاخیر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو حضرت بلال ؓ نے نماز کے لیے بلایا تو آپ کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ (فتح الباري:407/1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر امام راتب کے مستثنیٰ ہونے کا عنوان بھی قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث :675) آگ پر پکی ہوئی چیز استعمال کرنے سے وضو کرنے یا نہ کرنے کی وضاحت کے بعد ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر ان حضرات کا بھی ذکر کر دیا جائے جن کا وتیرہ تدبر حدیث کی آڑ میں احادیث سے مذاق کرنا ہے، چنانچہ: ’’امام تدبر‘‘ لکھتے ہیں: ’’معلوم نہیں کہاں سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ گوشت یا ستو وغیرہ کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے، اس بارے میں ایک مذہب یہ ہے کہ وضو کا یہ حکم پہلے تھا، لیکن بعد میں منسوخ ہو گیا، یہ توجیہ کسی عقلی یا نقلی بنیاد پر نہیں ہے، عوامی باتیں اسی طرح کی ہوتی ہیں۔‘‘ (تدبر حدیث:302/1) اصلاحی صاحب نے احادیث نبویہ کو ’’عوامی باتوں‘‘ سے تعبیر کر کے ان کا استخفاف کیا ہے۔ گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کی نقلی بنیاد تو آپ معلوم کر چکے ہیں، اس کی عقلی بنیاد یہ ہے کہ حافظ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ آگ سے تیار ہونے والی چیزوں میں قوت ناریہ کے اثرات آجاتے ہیں جو شیطان کا مادہ ہے، یعنی وہ اس سے پیدا ہوا ہے اورآگ پانی سے بجھ جاتی ہے، اس بنا پر اس کے استعمال کے بعد وضو مناسب ہوا۔ اس کی نظیر غصے کے بعد وضو کا حکم ہے۔ حدیث میں ہے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔ (زادالمعاد: 376/4) 4۔ امام بخاری ؒ نے اونٹ کے گوشت کھانے سے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا اور نہ پوری کتاب میں اس کے متعلق کوئی حدیث ہی بیان کی ہے۔ تاہم اونٹ کا گوشت کھانے سے نقض وضو کے قائل امام احمد ؒ ، امام اسحاق ؒ ، امام یحییٰ ؒ ابن منذر اور امام ابن خزیمہ ؒ وغیرہ ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک تو اونٹ کے گوشت کو محض ہاتھ لگانا ہی نقض وضو کا باعث ہے۔ چنانچہ امام ابو داود ؒ نے ان کی تردید کے لیے اپنی سنن میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:185) امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ اکثر حضرات کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان میں خلفائے اربعہ عبد اللہ بن مسعود، ابی کعبؓ ، ابن عباسؓ، ابو الدرداءؓ، ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابو اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمہور تابعین اور آئمہ ثلاثہ ہیں۔ (شرح صحیح مسلم للنووي:65/4) شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں: اس کے متعلق تقض وضو کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا، پھر منسوخ ہو گیا۔ فقہائے صحابہ اور تابعین میں سے کوئی بھی اس سے نقض وضو کا قائل نہیں۔ لیکن محدثانہ نقطہ نظر سے اس کے منسوخ ہونے کا قطعی فیصلہ دشوار ہے، اس لیے احتیاط کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔ (حجة اللہ البالغة:547/1) ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس کے کھانے کے بعد وضو کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کے بعد وضو نہیں ہے، لیکن اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد آپ نے وضو کرنے کا حکم دیا۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:184) اس حدیث میں اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے کی صراحت ہے، اس لیے اس سے لغوی وضو مراد لینا یا اس حکم کو استحباب پرمحمول کرنا جیسا کہ بعض علماء کہتے ہیں صحیح نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
208
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
208
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
208
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
208
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان کردہ یہ معلق مصنف ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ (1/88)اور دیگرکئی کتابوں میں موصولاً مروی ہے۔
”اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے گوشت کھایا اور نیا وضو نہیں کیا“۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانے سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے ہیں۔ آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے چھری رکھ دی، نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عنوان میں دو چیزیں ہیں بکری کا گوشت اور ستو، امام بخاری ؒ نے دو حدیثیں ذکر کی ہیں، لیکن کسی ایک میں بھی ستو کا ذکر نہیں۔ دراصل نصوص سے مسائل کا استنباط کئی ایک طریقوں سے ہوتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں اس مسئلے میں واضح طور پر ذکر ہو۔ اسے عبارۃ النص کہا جاتا ہے۔ بکری کے گوشت کے استعمال کے بعد وضو نہ کرنا عبارۃ النص سے ثابت کیا ہے۔ بعض دفعہ الفاظ سے براہ راست نہیں بلکہ ان کی رہنمائی میں مسئلے کا استنباط کیا جاتا ہے۔ اسے دلالۃ النص کہا جاتا ہے۔ ستو استعمال کرنے کے بعد وضو نہ کرنا دلالۃ النص سے ثابت ہے۔ وہ اس طرح کہ گوشت میں چکناہٹ ہوتی ہے، جب آپ نے چکناہٹ والی چیز استعمال کرنے کے بعد وضو نہیں کیا تو ستو جن میں چکناہٹ نہیں ہوتی ان کے استعمال کے بعد بدرجہ اولیٰ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھانا جائز ہے۔ چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب قطع اللحم بالسكين) ’’گوشت کا چھری سے کاٹنا۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، باب: 20) لیکن حضرت عائشہ ؓ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چھری سے گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ کیونکہ عجمی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث:3778) اس کی تطبیق یہ ہے کہ منع کی یہ حدیث صحیح نہیں، بلکہ امام ابن جوزی ؓ نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؓ نے لکھا ہے کہ ضرورت کے پیش نظر چھری وغیرہ کا استعمال درست ہے، لیکن بلاوجہ چھری سے کاٹ کاٹ کر کھانا یہ اعاجم اور عیش پسند لوگوں کے ساتھ تشبیہ ہے۔ جسے شریعت نے پسند نہیں کیا۔ (فتح الباري:407/1) چھری کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب گوشت اچھی طرح پکا ہوا نہ ہو، یعنی سخت ہو یا اس کے ٹکڑے بڑے بڑے ہوں، تو ایسے حالات میں گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھایا جا سکتا ہے، البتہ ہمیشہ کے لیے عادت بنا لینا عجمیوں کا طریقہ ہے۔ قاضی عیاض، ملا علی قاری اور امام بیہقی ؒ نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ 3۔ حدیث میں ہے کہ جب رات کا کھانا سامنے آ جائے اور نماز کا وقت بھی ہو تو پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ پھراطمینان سے نماز پڑھی جائے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ کھانے کے متعلق یہ ہدایت مقرر امام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔ مسجد کا مقرر امام اس سے مستثنیٰ ہے، کیونکہ اس کے کھانے میں مشغولیت کی وجہ سے مسجد کے تمام نمازیوں کو انتظار کی تکلیف اٹھانی پڑے گی اور نماز میں بھی تاخیر ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو حضرت بلال ؓ نے نماز کے لیے بلایا تو آپ کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ (فتح الباري:407/1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر امام راتب کے مستثنیٰ ہونے کا عنوان بھی قائم کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث :675) آگ پر پکی ہوئی چیز استعمال کرنے سے وضو کرنے یا نہ کرنے کی وضاحت کے بعد ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس مقام پر ان حضرات کا بھی ذکر کر دیا جائے جن کا وتیرہ تدبر حدیث کی آڑ میں احادیث سے مذاق کرنا ہے، چنانچہ: ’’امام تدبر‘‘ لکھتے ہیں: ’’معلوم نہیں کہاں سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ گوشت یا ستو وغیرہ کھانے کے بعد وضو کرنا چاہیے، اس بارے میں ایک مذہب یہ ہے کہ وضو کا یہ حکم پہلے تھا، لیکن بعد میں منسوخ ہو گیا، یہ توجیہ کسی عقلی یا نقلی بنیاد پر نہیں ہے، عوامی باتیں اسی طرح کی ہوتی ہیں۔‘‘ (تدبر حدیث:302/1) اصلاحی صاحب نے احادیث نبویہ کو ’’عوامی باتوں‘‘ سے تعبیر کر کے ان کا استخفاف کیا ہے۔ گوشت کھانے کے بعد وضو کرنے کی نقلی بنیاد تو آپ معلوم کر چکے ہیں، اس کی عقلی بنیاد یہ ہے کہ حافظ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ آگ سے تیار ہونے والی چیزوں میں قوت ناریہ کے اثرات آجاتے ہیں جو شیطان کا مادہ ہے، یعنی وہ اس سے پیدا ہوا ہے اورآگ پانی سے بجھ جاتی ہے، اس بنا پر اس کے استعمال کے بعد وضو مناسب ہوا۔ اس کی نظیر غصے کے بعد وضو کا حکم ہے۔ حدیث میں ہے کہ غصہ شیطان کی طرف سے ہے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔ (زادالمعاد: 376/4) 4۔ امام بخاری ؒ نے اونٹ کے گوشت کھانے سے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا اور نہ پوری کتاب میں اس کے متعلق کوئی حدیث ہی بیان کی ہے۔ تاہم اونٹ کا گوشت کھانے سے نقض وضو کے قائل امام احمد ؒ ، امام اسحاق ؒ ، امام یحییٰ ؒ ابن منذر اور امام ابن خزیمہ ؒ وغیرہ ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک تو اونٹ کے گوشت کو محض ہاتھ لگانا ہی نقض وضو کا باعث ہے۔ چنانچہ امام ابو داود ؒ نے ان کی تردید کے لیے اپنی سنن میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:185) امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں اس کی تفصیل لکھی ہے کہ اکثر حضرات کے نزدیک اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، ان میں خلفائے اربعہ عبد اللہ بن مسعود، ابی کعبؓ ، ابن عباسؓ، ابو الدرداءؓ، ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابو اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمہور تابعین اور آئمہ ثلاثہ ہیں۔ (شرح صحیح مسلم للنووي:65/4) شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں: اس کے متعلق تقض وضو کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا، پھر منسوخ ہو گیا۔ فقہائے صحابہ اور تابعین میں سے کوئی بھی اس سے نقض وضو کا قائل نہیں۔ لیکن محدثانہ نقطہ نظر سے اس کے منسوخ ہونے کا قطعی فیصلہ دشوار ہے، اس لیے احتیاط کا پہلو اختیار کرنا چاہیے۔ (حجة اللہ البالغة:547/1) ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ اونٹ کے گوشت میں چکناہٹ زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس کے کھانے کے بعد وضو کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے بکری کا گوشت کھانے کے بعد وضو کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کے بعد وضو نہیں ہے، لیکن اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد آپ نے وضو کرنے کا حکم دیا۔‘‘ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:184) اس حدیث میں اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے کی صراحت ہے، اس لیے اس سے لغوی وضو مراد لینا یا اس حکم کو استحباب پرمحمول کرنا جیسا کہ بعض علماء کہتے ہیں صحیح نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہمیں لیث نے عقیل سے خبر دی، وہ ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں، انھیں جعفر بن عمرو بن امیہ نے اپنے باپ عمرو سے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانہ سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ نماز کے لیے بلائے گئے تو آپ نے چھری ڈال دی اور نماز پڑھی، نیا وضو نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
کسی بھی جائز اور مباح چیز کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جن روایات میں ایسے وضو کرنے کا ذکر آیا ہے وہاں لغوی وضو یعنی صرف ہاتھ منہ دھونا۔ کلی کرنا مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ja'far bin 'Amr bin Umaiya (RA): My father said, "I saw Allah's Apostle (ﷺ) taking a piece of (cooked) mutton from the shoulder region and then he was called for prayer. He put his knife down and prayed without repeating ablution."