تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے حضرت انس ؓ سے مروی حدیث کو دو طریق سے بیان کیا ہے جس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ پہلی روایت میں سوق سے مراد سوق بقیع ہے۔اس کی تائید مسند احمد کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔راوی بیان کرتا ہے رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس بقیع میں تشریف لائے اور فرمایا:’’اے تاجروں کے گروہ !خریدوفروخت کرتے وقت جھوٹی قسم اور دھوکے وغیرہ میں انسان مبتلا ہوجاتا ہے،لہٰذا تم اس قسم کی لغزش کو صدقے وغیرہ سے دھو دیا کرو‘‘ (مسند أحمد:6/4) ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں وہاں بازار لگتا ہو۔ (2) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کا بازار جانا ثابت ہوتا ہے،اس لیے بوقت ضرورت بازار جانا برا نہیں مگر وہاں قدم قدم پر امانت ودیانت کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔کافر لوگ رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ رسول کھانا کھاتا اور بازار جاتا ہے ،گویا ان کے نزدیک بازار جانا منصب نبوت کے خلاف تھا۔اس سے ثابت ہوا کہ آپ کا بازار جانا شان ِرسالت اور منصب امامت کے خلاف نہیں۔قرآن کریم نے بھی اس اعتراض کا جواب دیا ہے۔ (الفرقان20:25)