Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: The selling of the foodstuff and its storage)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2152.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص غلہ خریدے تو اسے فروخت نہ کرے تاآنکہ اس پر قبضہ کرلے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث احتکار کے جواز کے لیے پیش کی ہے جس کی قبل ازیں وضاحت ہو چکی ہے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ احتکار خوراک اور غیر خوراک ہر چیز میں منع ہے یا صرف انسانوں اور حیوانوں کی خورو نوش کی اشیاء میں۔ہمارے نزدیک کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی منع ہے بشرطیکہ لوگوں کو دستیاب نہ ہو اور وہ اس کے محتاج بھی ہوں لیکن وہ شخص عام انسانوں کے لیے مہنگا کرنا چاہتا ہو۔اگرچہ بعض احادیث میں لفظ طعام کی صراحت ہے لیکن جن احادیث میں مطلق طور پر احتکار کی ممانعت ہے انھیں مقید احادیث پر محمول کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جسے روک رکھنا لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہو احتکار میں شامل ہے،خواہ وہ سونا ہو یا کپڑا یا غلہ وغیرہ۔(2)واضح رہے کہ حضرت سعید بن مسیّب ؒنے جب احتکار کے متعلق حدیث بیان کی تو کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کیوں احتکار کرتے ہیں؟تو کہنے لگے کہ اس حدیث کے راوی حضرت معمر ؓ بھی احتکار کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:4122(1805)) یہ دونوں زیت،یعنی تیل کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے لیکن یہ اس وقت جب بازار میں عام دستیاب تھا کیونکہ جب بازار میں ضرورت کی اشیاء نایاب ہوں تو ایک صحابی کا ایسے حالات میں ذخیرہ اندوزی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2072
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2133
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2133
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2133
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
احتکار کہتے ہیں گرانی کے وقت غلہ خرید کرکے اس کو رکھ چھوڑنا، کہ جب بہت گراں ہوگا تو بیچیں گے۔ اگر ارزانی کے وقت خرید کر کے رکھ چھوڑے تو یہ احتکار منع نہیں ہے۔ اسی طرح اگر گرانی کے وقت اپنے خانگی ضروریات کے لیے غلہ خرید کر چھوڑے تو یہ منع نہیں ہے۔ باب کی حدیثوں میں احتکاف کا ذکر نہیں ہے۔ حافظ نے کہا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے احتکار کا جواز ثابت کیا، اس حدیث سے کہ غلہ قبضے سے پہلے نہ بیچے یعنی اپنے گھر یا دکان میں لانے سے پہلے۔ تو اگر احتکار حرام ہوتا تو آپ یہ حکم نہ فرماتے بلکہ خریدتے ہی بیچنے کا حکم دے دیتے اور شاید ان کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں ہے جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے نکالا کہ احتکار وہی کرتا ہے جو گنہگار ہے اور ابن ماجہ اور حاکم نے نکالا کہ جو کوئی مسلمان پر ان کا کھانا احتکار کرے گا، اللہ اس پر جذام کی بیماری ڈالے گا۔ ( وحیدی ) احتکار کی بحث میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : وکل ذلک مشعر بان الاحتکار یمنع فی حالة مخصوصة بشرط مخصوصة و قد ورد فی ذم الاحتکار احادیث منہا حدیث معمر المذکور اولاً و حدیث عمر مرفوعاً من احتکر علی المسلمین طعامہم ضربه اللہ بالجذام و الافلاس رواہ ابن ماجہ و اسنادہ حسن، وعنہ مرفوعاً قال الجالب مرزوق و المحتکر ملعون اخرجہ ابن ماجہ و الحاکم و اسنادہ ضعیف و عن ابن عمر مرفوعاً من احتکر اربعین لیلة فقد بری من اللہ و بری منه اخرجہ احمد و الحاکم و فی اسنادہ مقال و عن ابی ہریرة مرفوعاً من احتکر حکرۃ یرید ان یغالی بہا علی المسلمین فہو خاطی اخرجه الحاکم۔ “ یعنی یہاں مذکورہ مباحث سے ظاہر ہے کہ احتکار حالات مخصوص میں شرائط مخصوصہ کے ساتھ منع ہے اور احتکار کی مذمت میں کئی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔ جیسا کہ معمر کی حدیث مذکو رہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جس نے مسلمانوں پر غلہ کو روک لیا۔ اس کو اللہ تعالیٰ جذام کے مرض اور افلاس میں مبتلا کرے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ غلہ کا بازار میں لا کر فروخت کرنے والا روزی دیا گیا ہے اور غلہ کو روکنے والا ملعون ہے اور یہ بھی ہے کہ جس نے چالیس رات تک غلہ کو روک کر رکھا وہ اللہ سے بری ہو گیا اور اللہ اس سے بری ہے، اور یہ بھی ہے کہ جو گرانی کے انتظار میں غلہ کو روکے وہ گنہگار ہے۔ ایسے حالات میں موجودہ احتکار تقریباً بیشتر ممالک میں ایک سنگین قانونی جرم قرار دیا گیا ہے جب کہ بہت جگہ قحط سالی میں لوگ مبتلا ہیں۔ اسلام آج سے چودہ سو سال پیشتر رفاہ عام کے اس قانون کا اجراءکر چکا ہے۔ سند میں مذکور سالم نامی بزرگ تابعین میں سے ہیں اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطابؓ کے فرزند ارجمند ہیں۔ ابوعمران ان کی کنیت ہے، قریشی عدوی مدنی ہیں، فقہائے مدینہ کے سرخیل ہیں، 106ھ میں مدینہ میں وفات پائی رحمہ اللہ۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص غلہ خریدے تو اسے فروخت نہ کرے تاآنکہ اس پر قبضہ کرلے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث احتکار کے جواز کے لیے پیش کی ہے جس کی قبل ازیں وضاحت ہو چکی ہے۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ احتکار خوراک اور غیر خوراک ہر چیز میں منع ہے یا صرف انسانوں اور حیوانوں کی خورو نوش کی اشیاء میں۔ہمارے نزدیک کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی منع ہے بشرطیکہ لوگوں کو دستیاب نہ ہو اور وہ اس کے محتاج بھی ہوں لیکن وہ شخص عام انسانوں کے لیے مہنگا کرنا چاہتا ہو۔اگرچہ بعض احادیث میں لفظ طعام کی صراحت ہے لیکن جن احادیث میں مطلق طور پر احتکار کی ممانعت ہے انھیں مقید احادیث پر محمول کرنا مناسب نہیں کیونکہ اس طرح کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک ہر وہ چیز جسے روک رکھنا لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہو احتکار میں شامل ہے،خواہ وہ سونا ہو یا کپڑا یا غلہ وغیرہ۔(2)واضح رہے کہ حضرت سعید بن مسیّب ؒنے جب احتکار کے متعلق حدیث بیان کی تو کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کیوں احتکار کرتے ہیں؟تو کہنے لگے کہ اس حدیث کے راوی حضرت معمر ؓ بھی احتکار کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث:4122(1805)) یہ دونوں زیت،یعنی تیل کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے لیکن یہ اس وقت جب بازار میں عام دستیاب تھا کیونکہ جب بازار میں ضرورت کی اشیاء نایاب ہوں تو ایک صحابی کا ایسے حالات میں ذخیرہ اندوزی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو یہ کہتے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص بھی کوئی غلہ خریدے تو اس پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے نہ بیچے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "He who buys foodstuff should not sell it till he has received it."