تشریح:
1۔ یہ باب بلاعنوان ہے۔ عام طورپر ایسے ابواب کی تین اغراض ہوتی ہیں: (1)۔ اس کا تعلق پہلے باب سے ہوتاہے گویا یہ اس کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ (2)۔ قارئین کی ذہنی استعداد بڑھانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ حدیث پر غورو فکر کرکے خود کوئی عنوان قائم کریں۔ (3)۔ بعض اوقات یہ بھی اشارہ ہوتا ہے کہ باب بلاعنوان کے تحت آنے والی حدیث سے متعدد مسائل ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اس پر کوئی ایک عنوان قائم کرکے اسے محدود نہیں کیاجاتا۔ اس مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کیا غرض ہے اس کے متعلق شارحین نے مختلف وجوہات لکھیں ہیں: (الف)۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کے تراجم ابواب میں لکھا ہے کہ باب کا لفظ صرف ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے میں ہے، بخاری کے دوسرے نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔ لہذااس کا حذف ہی بہتر ہے۔ (ب)۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ باب سابق باب کی فصل ہے، لیکن اس موقف سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سابق باب کی فصل قراردینے کے لیے دوچیزوں کا ہوناضروری ہے۔1۔ ان دونوں میں کسی اعتبار سے اتحادہو۔ 2۔ دوسری جہت سے ان میں مغایرت کا پہلو بھی نماہاں ہو۔ اگر اسے باب سابق ’’ غسل البول‘‘ کی فصل تسلیم کریں تو کلی طور پر مغایرت ہے، کسی اعتبار سے بھی ان میں اتحاد نہیں۔ اگر اس سے پہلے باب کی فصل تسلیم کریں تواس میں کلی اتحاد ہے کیونکہ وہاں بھی اس حدیث کو بیان کیاگیا ہے۔ اسے دوبارہ یہاں پربیان کرنا چہ معنی دارد۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس باب بلاعنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اختلاف سند دکھانا ہے، گزشتہ روایت مجاہد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی اور مذکورہ روایت مجاہد عن طاؤس عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، یعنی یہ روایت بواسطہ طاؤس ہے جبکہ پہلی براہ راست تھی۔ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں طریق کی صحت تسلیم کی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث مذکور کو بواسطہ طاؤس اور براہ راست دونوں طرح سنا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ طاؤس والی روایت کو اصح کہا ہے۔ (عمدة القاري: 604/2) ہمارے نزدیک اس باب بلاعنوان کی غرض قارئین کی ذہنی استعداد بڑھانا ہے کہ وہ خود اس کے سیاق وسباق کا لحاظ کرکے کوئی موزوں عنوان قائم کریں، چنانچہ یہاں مندرجہ ذیل عنوان مناسب ہے: (البول موجبا لعذاب القبر) پہلے باب میں اس کا کبیرہ گناہ ہوناثابت کیاتھااور یہاں تنبیہ فرمائی کہ عذاب قبر بھی کبیرہ گناہ کے باعث ہوتا ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ مستقل باب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس لیے قائم کیا ہے کہ غسل بول پر واضح دلالت ہوجائے۔ اس میں شک نہیں کہ پیشاب کا دھونا واجب ہے، ہاں! ڈھیلے سے استنجا کرنے کی صورت میں رخصت ثابت ہے بشرطیکہ اپنے محل سے منتشر نہ ہو۔ اگرپیشاب اپنے محل سے منتشر ہواتوڈھیلے سے استنجا کرنے کے باوجود اس کا دھونا اس حدیث سے ثابت ہوگا، یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض محل سے منتشر شدہ بول کے وجوب غسل پر تنبیہ ہے۔ (فتح الباری:420/1) 3۔ ابن بطال نے لکھاہے کہ لایستتر کے معنی یہ ہیں: اپنے جسم اور کپڑوں کوپیشاب سے نہیں بچاتاتھا، پھر جب اس کے دھونے سے بے پروائی اور اسے معمولی خیال کرنے کی وجہ سے عذاب کی وعید ہے تو معلوم ہوا کہ جو شخص پیشاب کو اس کے مخرج میں چھوڑ دے گا اسے نہ دھوئے گا وہ بھی مستحق عذاب ہوگا۔ صحیح بخاری کےعلاوہ دوسری روایت میں ( لَايَستَبرِئُ) کے الفاظ ہیں، یعنی پیشاب کے بعد کوئی قطرہ آنے والاہوتو اسے نکال دینے کی کوشش نہیں کرتا تھا، اس لیےضروری ہے کہ استنجا کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پیشاب کی نالی میں کوئی قطرہ باقی نہ رہے۔ اگر اس میں بے پروائی کی اور وضو کے بعد پیشاب کا قطرہ ،برآمد ہواتو وضو ساقط ہوکر نماز بھی صحیح نہ ہوگی۔ (شرح ابن بطال: 325/2) آج کل چونکہ مثانے کی کمزوری کے متعلق عام شکایت ہے، اس لیے استنجا کرتے وقت تحریک ونثر(جھاڑنے) کے ذریعے سے پیشاب گاہ کو بالکل خالی کرلینا چاہیے۔ 4۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ عذاب قبر کا پیشاب سے پرہیز نہ کرنے اورچغلی کرنے سے گہرا تعلق ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان مناسبت کی توضیح کی ہے کہ برزخ مقدمہ آخرت ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے حقوق اللہ میں سے نماز کا فیصلہ کیا جائے گا او رنماز بھی وہ قبول ہوگی جو حدث وخبث سے طہارت پر مبنی ہوگی اور حقو ق العباد میں سے قتل وخون کے فیصلے سب سے پہلے ہوں گے اور قتل وخون کابڑا سرچشمہ غیبت اور چغل خوری ہے۔ جب ایک کی بات دوسرے تک فساد وشرانگیزی کی نیت سے پہنچائی جائے گی تو اس سے جذبات مشتعل ہوں گے اور قتل وخون ناحق تک نوبت پہنچ جائے گی۔ (فتح الباري:579/10) (5)۔ اصلاحی صاحب نے اس روایت کے متعلق بھی اپنے اندیشہ ہائے دور دراز کا اظہار کیا ہے اور ان کے پیش نظر اسے محل نظرقرار دیا ہے۔ اس روایت میں حضرت امام اعمش کا نام آیا ہے۔ ان کے متعلق امام تدبر کا تبصرہ سنیے۔ ’’ اعمش کے متعلق رجال کے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ شیعیت کے لیے متہم تھے۔ یہ بات ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح زہری روایات میں ملاوٹ کر دیتے ہیں اسی طریقے سے اعمش نے یہاں یہ کیا ہے۔ (تدبر حدیث: 310/1) رجال کے ماہرین میں سے یحییٰ القطان کانام سرفہرست ہے۔ امام اعمش کے متعلق یحییٰ القطان فرماتے ہیں کہ یہ نہایت عبادت گزار اور اسلام کی ایک علامت تھے۔ حضرت ابوبکر بن عیاش انھیں سید المحدثین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ ( تهذیب الکمال في أسماء الرجال: 113/114/8)