تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت غلہ ادھار پر خریدا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے پاس زائد غلہ نہ ہو یا اس بنا پر یہودی سے معاملہ کیا ہوکہ کوئی مسلمان رواداری کے طور پر اس کی قیمت وصول نہ کرتا، اس لیے آپ نے انھیں زحمت دینا گوارا نہ فرمایا۔ ایک دوسری روایت میں ہے:آپ نے اس یہودی سے جو لیے تھے اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور اپنی گروی رکھی ہوئی زرہ قیمت دے کر واپس نہ لے سکے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے اسے قیمت ادا کر کے زرہ واپس لی۔ (2) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کی زندگی کے آخری ایام کا ہے جبکہ صاحب تدبر حدیث نے اسے مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور کا قرار دیا ہے۔ یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم؟ ان کے نزدیک یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔ (تدبر حدیث:485/1)