Sahi-Bukhari:
Sales and Trade
(Chapter: Price of a dog)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2257.
ت عون بن ابوجحیفہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد گرامی کو دیکھا کہ انھوں نے سینگی لگانے والا ایک غلام خریدا، تو اس کے آلات توڑنے کا حکم دیا۔ میں نے اسکے متعلق پوچھا توانھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے خون اور کتے کی قیمت اور لونڈی (زانیہ) کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔ اور جلد میں سوئی کے ساتھ سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی، سود کھانے اور کھلانے والے نیز تصویر بنانے والے سب پر لعنت کی ہے۔
تشریح:
(1) ان دو احادیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کے متعلق شریعت نے حکم امتناعی جاری کیا ہے: ٭ کتے کی قیمت۔ ٭ فاحشہ عورت کی کمائی ۔٭ کاہن کی شیرینی۔ ٭ خون کی خریدو فروخت۔ ٭ لونڈی سے پیشہ کرانا۔ اس کے علاوہ تین کاموں کی نشاندہی کی گئی ہے جو باعث لعنت وپھٹکار ہیں۔ (ا) خوبصورتی کے لیے جسم کے کسی حصے میں سرمہ بھرنے بھرانے کا پیشہ کرنا۔ (ب) سودی کاروبار کرنا،یعنی اسے لینا دینا۔ (ج) فوٹو گرافی اور تصویر کشی کو اختیار کرنا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد صرف کتے کی قیمت کے متعلق ہمیں آگاہ کرنا ہے کہ یہ حرام اور ناجائز ہے۔ جمہور محدثین کے نزدیک ہر قسم کے کتے کی قیمت حرام ہے، خواہ سدھایا ہوا ہو یا اس کے علاوہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اسے مار ڈالے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ (فتح الباري:538/4) لیکن اس دور میں کتوں سے بہت کام لیے جاتے ہیں، مثلاً: جاسوسی،سراغ رسانی اور شکار کرنے کے لیے ان کا استعمال بہت مشہور ہے۔کسٹم اور دیگر شعبہ جات میں کتوں کی بہت اہمیت ہے۔ گھر کی حفاظت کے لیے کتے رکھنا بھی ہمارے ہاں معمول ہے اور اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ جس چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اس کی خریدوفروخت بھی جائز ہے۔ احادیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں شکاری کتے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت لینے سے منع کیا ہے۔ (سنن النسائي، البیوع، حدیث:4672) اس رویت کو اگرچہ امام نسائی ؒ نے منکر کہا ہے تاہم محدث العصر علامہ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح سنن النسائي، البیوع، حدیث:4353)(3) واضح رہے کہ کتوں میں سونگھنے کی بہت قوت ہوتی ہے۔ یہ سونگھ کر مجرم کا کھوج لگاتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے۔ان پر بہت خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے، پھر ان تربیت یافتہ کتوں کی بہت بھاری قیمتیں ہوتی ہیں۔ بہر حال شوقیہ کتے رکھنا یا دوڑ میں مقابلے کےلیے انھیں پالنے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر انھیں رکھنا جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2171
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2238
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2238
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2238
تمہید کتاب
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔ اور سود کو حرام قراردیا ہے۔ "
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)"
فائدہ:سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔ جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔ اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔ اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے ،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے ،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔لفظ بيوع بيع کی جمع ہے ۔اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں: (1) مشتری (خریدار)(2)بائع (فروخت کار)(3)بیع(مال تجارت)(4)بیع (معاہدۂ تجارت)۔قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾) اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔"( النساء29:4)باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:(1) فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔(2)خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔(3)قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔(4)فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔(5) کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔(6)اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ (7)اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔ ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔( عمدۃ القاری:8/291)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔( فتح الباری:4/364) امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔ ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمين
سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے ،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔( عمدۃ القاری:8/292)
تمہید باب
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء کا یہ قول ہے کہ مطلقاً کسی کتے کی بیع جائز نہیں، سکھایا ہوا ہو یا بن سکھایا ہوا۔ اور اگر کوئی اس کو مار ڈالے تو اس پر ضمان لازم نہیں آتا۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ضمان لازم ہو گا۔ اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک شکاری اور فائدہ مند کتے کی بیع درست ہے۔
ت عون بن ابوجحیفہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد گرامی کو دیکھا کہ انھوں نے سینگی لگانے والا ایک غلام خریدا، تو اس کے آلات توڑنے کا حکم دیا۔ میں نے اسکے متعلق پوچھا توانھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے خون اور کتے کی قیمت اور لونڈی (زانیہ) کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔ اور جلد میں سوئی کے ساتھ سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی، سود کھانے اور کھلانے والے نیز تصویر بنانے والے سب پر لعنت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان دو احادیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کے متعلق شریعت نے حکم امتناعی جاری کیا ہے: ٭ کتے کی قیمت۔ ٭ فاحشہ عورت کی کمائی ۔٭ کاہن کی شیرینی۔ ٭ خون کی خریدو فروخت۔ ٭ لونڈی سے پیشہ کرانا۔ اس کے علاوہ تین کاموں کی نشاندہی کی گئی ہے جو باعث لعنت وپھٹکار ہیں۔ (ا) خوبصورتی کے لیے جسم کے کسی حصے میں سرمہ بھرنے بھرانے کا پیشہ کرنا۔ (ب) سودی کاروبار کرنا،یعنی اسے لینا دینا۔ (ج) فوٹو گرافی اور تصویر کشی کو اختیار کرنا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد صرف کتے کی قیمت کے متعلق ہمیں آگاہ کرنا ہے کہ یہ حرام اور ناجائز ہے۔ جمہور محدثین کے نزدیک ہر قسم کے کتے کی قیمت حرام ہے، خواہ سدھایا ہوا ہو یا اس کے علاوہ ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اسے مار ڈالے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔ (فتح الباري:538/4) لیکن اس دور میں کتوں سے بہت کام لیے جاتے ہیں، مثلاً: جاسوسی،سراغ رسانی اور شکار کرنے کے لیے ان کا استعمال بہت مشہور ہے۔کسٹم اور دیگر شعبہ جات میں کتوں کی بہت اہمیت ہے۔ گھر کی حفاظت کے لیے کتے رکھنا بھی ہمارے ہاں معمول ہے اور اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ جس چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اس کی خریدوفروخت بھی جائز ہے۔ احادیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں شکاری کتے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت لینے سے منع کیا ہے۔ (سنن النسائي، البیوع، حدیث:4672) اس رویت کو اگرچہ امام نسائی ؒ نے منکر کہا ہے تاہم محدث العصر علامہ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح سنن النسائي، البیوع، حدیث:4353)(3) واضح رہے کہ کتوں میں سونگھنے کی بہت قوت ہوتی ہے۔ یہ سونگھ کر مجرم کا کھوج لگاتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے۔ان پر بہت خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے، پھر ان تربیت یافتہ کتوں کی بہت بھاری قیمتیں ہوتی ہیں۔ بہر حال شوقیہ کتے رکھنا یا دوڑ میں مقابلے کےلیے انھیں پالنے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر انھیں رکھنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عون بن ابی حجیفہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے والد کو دیکھا کہ ایک پچھنا لگانے والے (غلام) کو خرید رہے ہیں۔ اس پر میں نے اس کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے خون کی قیمت، کتے کی قیمت، باندی کی (ناجائز) کمائی سے منع فرمایا تھا۔ اور گودنے والیوں اور گدوانے والیوں، سود لینے والوں اور دینے والوں پر لعنت کی تھی اور تصویر بنانے والے پر بھی لعنت کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
خون کی قیمت سے پچھنا لگانے والے کی اجرت مراد ہے۔ اس حدیث سے عدم جواز ظاہر ہوا مگر دوسری حدیث جو مذکور ہوئی اس سے یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے۔ اس حدیث میں صاف مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود پچھنا لگوایا اور اس پچھنا لگانے والے کو اجرت ادا فرمائی۔ جس سے جواز ثابت ہوا۔ کتے کی قیمت کے متعلق ابوداؤد میں مرفوعاً موجود ہے کہ جو کوئی تم سے کتے کی قیمت طلب کرے اس کے ہاتھ میں مٹی ڈال دو، مگر نسائی میں جابر ؓ کی روایت ہے کہ آپ نے شکاری کتے کو مستثنیٰ فرمایا کہ اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔ زانیہ کی اجرت جو وہ زنا کرانے پر حاصل کرتی ہے، اس کا کھانا بھی ایک مسلمان کے لیے قطعاً حرام ہے، مجازاً یہاں اس اجرت کو لفظ مہر سے تعبیر کیا گیا۔ کاہن سے مراد فال کھولنے والے، ہاتھ دیکھنے والے، غیب کی خبریں بتلانے والے اور اس قسم کے سب وہ لوگ شامل ہیں جو ایسے پاکھنڈوں سے پیسہ حاصل کرتے ہیں۔ وهو حرام بالإجماع لما فیه من أخذ العوض علی أمر باطلیہ جھوٹ پر اجرت لینا ہے جو بالاجماع حرام ہے۔ گودنے والیاں اور گدوانے والیاں جو انسانی جسم پر سوئی سے گود کر اس میں رنگ بھر دیتی ہیں یہ پیشہ بھی حرام اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔ ا س لیے کہ کسی مسلمان مرد، عورت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کا مرتکب ہو۔ سود لینے والوں پر، اسی طرح سود دینے والوں پر، ہر دو پرلعنت کی گئی ہے بلکہ گواہ اور کاتب اور ضامن تک پر لعنت وارد ہوئی ہے کہ سود کا دھندا اتنا ہی برا ہے۔ تصویر بنانے والوں سے جانداروں کی تصویر بنانے والے لوگ مراد ہیں۔ ان سب پر لعنت کی گئی اور ان کا پیشہ ناجائز قرار دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aun bin Abu Juhaifa (RA): I saw my father buying a slave whose profession was cupping, and ordered that his instruments (of cupping) be broken. I asked him the reason for doing so. He replied, "Allah's Apostle (ﷺ) prohibited taking money for blood, the price of a dog, and the earnings of a slave-girl by prostitution; he cursed her who tattoos and her who gets tattooed, the eater of Riba (usury), and the maker of pictures."