تشریح:
1۔ شارحین نے اس باب سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد اغراض ذکر کی ہیں: (1)۔ شاہ ولی اللہ تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر (گھورے) اگرچہ کسی دوسرے کی ملکیت ہوتے ہیں، لیکن ان پر بول و براز کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں، کیونکہ انھیں گندگی جمع کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس لیے پیشاب کرنا اس قسم کا تصرف نہیں جس سے مالک ناراض ہو۔ (2)۔ اس عنوان سے گندگی کے مقامات پر پیشاب کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ ایسی جگہوں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا چاہیے بیٹھ کر پیشاب کرنے سے کپڑوں اور بدن کی آلودگی کا اندیشہ ہے۔
2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ طہارت کی بنا پر پیشاب کے معاملے میں بہت متشدد تھے۔ وہ اپنے ساتھ شیشے کی بوتل رکھتے، اس میں پیشاب کر کے اسے زمین پر بہا دیتے۔ ابن منذر نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا تو فرمایا: تمھیں کھڑے ہو کر نہیں بلکہ بیٹھ کر پیشاب کرنا چاہیے تھا۔ بنی اسرائیل کا عمل یہ تھا کہ اگر کسی شخص کے کپڑے کو نجاست لگ جاتی تو وہ اسے کاٹ ڈالتا تھا، لہٰذا ہمیں بھی پیشاب کے سلسلے میں احتیاط کرنی چاہیے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے وضاحت فرمائی کہ پیشاب کے معاملے میں اتنے تشدد کی ضرورت نہیں، کیونکہ دین اسلام کی بنیاد یُسر وسہولت پر ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے (گھورے پر) کھڑے ہو کر پیشاب کیا اور اس طرح پیشاب کرنے میں باریک باریک چھینٹوں کا اندیشہ باقی رہتا ہے، لیکن آپ نے اس قسم کے دور از کار احتمالات کی بالکل پروا نہیں کی۔
3۔ علامہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت ان لوگوں کی دلیل ہے جو پیشاب کے معمولی چھینٹوں کو قابل معافی سمجھتے ہیں، کیونکہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے سوئی کی نوک کے برابر چھینٹوں کے اڑنے اور ان کے کپڑوں پر آنے کا احتمال تو عام طور پر باقی رہتا ہے، پھر سوئی کی نوک کے برابر پیشاب کے چھینٹوں کے متعلق اختلاف ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں دھونا مستحب قراردیا ہے جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب کہتے ہیں اور اہل کوفہ نے دوسری نجاستوں کی طرح اس میں بھی سہولت اور رخصت دی ہے۔ (شرح ابن بطال:337/1)
4۔ اصلاحی صاحب نے تدبر حدیث کی آڑ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے لکھتے ہیں: ’’بنی اسرائیل سے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات سنی سنائی معلوم ہوتی ہے اس زمانے میں عرب کے لوگوں کو سابقہ ادیان کے بارے میں جو معلومات حاصل تھیں وہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے اہل کتاب سے سنی ہوئی تھیں۔ وہ صحیفوں سے براہ راست ناقدانہ واقفیت نہ رکھتے تھے۔‘‘ (تدبر حدیث: 318/1) حالانکہ یہود کے ہاں نجاسات کے معاملے میں بڑا تشدد تھا۔ قرآن کریم نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾ ’’ اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔‘‘ (الأعراف:157/7) اس بوجھ اور طوق کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ان یہودیوں کے ہاں جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی اس کا قطع کرنا ضروری تھا جسے شریعت اسلامیہ نے صرف دھونے کا حکم دیا ہے۔