باب: اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال ہی موجود نہ ہو
)
Sahi-Bukhari:
Sales in which a Price is paid for Goods to be Delivered Later (As-Salam)
(Chapter: As-Salam to a person who has got nothing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2265.
ابو بختری طائی سے روایت ہے انھوں نے کہا میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ جو کھجوریں درخت پر لگی ہوئی ہوں ان کے متعلق بیع سلم کرنا کیسا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ نے درخت پر لگی کھجور کی بیع سے منع فرمایا ہے جب تک وہ کھانے کے قابل اور وزن کے لائق نہ ہوجائے۔ ایک شخص نے پوچھا: کس چیز کا وزن کیاجائے؟ تو ایک شخص، جوان کے پاس بیٹھا تھا، بولا، یعنی اندازہ کرنے کے لائق ہوجائے۔ ابو بختری نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس جیسی بیع سے منع فرمایا ہے۔
تشریح:
(1) بیع سلم کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص پیشگی رقم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنی مدت کے بعد اتنے من کھجوریں درکار ہیں۔بیع سلم کے اعتبار سے ایسا کرنا جائز ہے۔ اس میں یہ بحث نہیں ہوگی کہ کہاں سے لاکر دے گا، اس کے پاس باغ وغیرہ ہے یا نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص پیشگی رقم دیتے وقت کہتا ہے کہ فلاح باغ کے فلاں درختوں پر لگی ہوئی کھجوریں درکار ہیں۔ ایسا کرنا جائز نہیں جب تک کھجوروں میں کھانے کی صلاحیت ظاہر نہ ہوجائے۔ باغ اور درخت کے تعین سے نقصان اور دھوکے کا اندیشہ ہے،اس لیے ایسا سودا جائز نہیں ہوگا۔ (2) امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فروخت کار کے پاس کسی چیز کی اصل کا نہ ہونا اس وقت فائدہ مند ہے جب عام پھل فراہم کرنے کا سودا لیکن جب کسی خاص باغ کے خاص درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کا سودا ہوگا تو اصل ہونے کے باوجود اس وقت تک سودا جائز نہیں ہوگا جب تک اس پھل میں صلاحیت پیدا نہ ہوجائے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ ہوگی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2177
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2246
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2246
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2246
تمہید کتاب
سلم،لفظی اور معنوی طور پر سلف ہی ہے جس کے معنی پیشگی رقم دینے کے ہیں۔دراصل سلف اہل عراق اور سلم اہل حجاز کی لغت ہے۔سلف بیوع کی ایک قسم ہے جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے معین مدت پر لیا جاتا ہے۔جو قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اسے رأس المال اور جو چیز تاخیر سے فروخت کی جاتی ہے اسے مسلم فیہ کہتے ہیں۔قیمت ادا کرنے والے کر رب السلم اور جنس ادا کرنے والے کو مسلم الیہ کہتے ہیں۔اسلام کا قاعدہ ہے کہ جو چیز معدوم ہو اس کی خریدوفروخت نہیں کی جاسکتی،لیکن اقتصادی ضرورت اور معاشی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی سہولت کےلیے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اور اس بیع کی مشروعیت پر امت کا اجماع ہے۔اس کے جواز کے لیے چند ایک شرائط ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔دور حاضر میں بڑے بڑے کاروبار خصوصاً بیرون ممالک سے تجارت سلم ہی کی بنیاد پر ہورہی ہے۔بین الاقوامی تجارت میں رقم پیشگی ادا کردی جاتی ہے یا بنک گارنٹی مہیا کی جاتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیمت کا کچھ حصہ پیشگی دیا جاتا ہے اور باقی چیز وصول ہونے کے بعد واجب الادا ہوتا ہے۔جملہ شرائط ایک معاہدے کی شکل میں تحریر کرلی جاتی ہیں،فریقین اس تحریر کے پابند ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بیرون ممالک سے تجارت نہیں کی جاسکتی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے متعلق الگ عنوان قائم کیا ہے اگرچہ کتاب البیوع میں اسے عام ابواب کی حیثیت سے بھی بیان کیا جاسکتا تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکتیس احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی ستائیس موصول ہیں۔اس عنوان کے تحت متعدد احادیث مکرر بیان ہوئی ہیں،صرف پانچ خالص ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھ آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر چھوٹے چھوٹے آٹھ عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) معین ماپ میں بیع سلم کرنا۔(2) تول یا وزن مقرر کر کے بیع سلم کرنا۔(3) ایسے شخص سے بیع سلم کرنا جس کے پاس اصل مال نہیں ہے۔(4) درخت پر لگی کھجوروں کی بیع سلم کرنا۔(5) بیع سلم میں کسی کو ضامن بنانا۔(6) بیع سلم میں کوئی چیز گروی رکھنا۔(7) مقررہ مدت تک کے لیے بیع سلم کرنا۔(8) اونٹنی کے بچہ جننے کی مدت تک کےلیے بیع سلم کرنا۔بہر حال بیع سلم کے وقت جنس کا پایا جا نا ضروری نہیں،تاہم یہ ضروری ہے کہ اختتام مدت پر اس چیز کا عام دستیاب ہونا ممکن ہو۔بہرحال ہماری مذکورہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور اس میں پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد اور مصالح وضروریات سے آگہی کا پتہ چلتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمين يا رب العالمين.
تمہید باب
مثلاً ایک شخص کے پاس کھجور نہیں ہے اور کسی نے اس سے کھجور لینے کے لیے سلم کیا۔ بعض نے کہا اصل سے مراد ا س کی بنا ہے، مثلاً غلہ کی اصل کھیتی ہے اور میوے کی اصل درخت ہے۔ اس باب سے یہ غرض ہے کہ سلم کے جواز کے لیے اس مال کا مسلم الیہ کے پاس ہونا ضروری نہیں۔
ابو بختری طائی سے روایت ہے انھوں نے کہا میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ جو کھجوریں درخت پر لگی ہوئی ہوں ان کے متعلق بیع سلم کرنا کیسا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ نے درخت پر لگی کھجور کی بیع سے منع فرمایا ہے جب تک وہ کھانے کے قابل اور وزن کے لائق نہ ہوجائے۔ ایک شخص نے پوچھا: کس چیز کا وزن کیاجائے؟ تو ایک شخص، جوان کے پاس بیٹھا تھا، بولا، یعنی اندازہ کرنے کے لائق ہوجائے۔ ابو بختری نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس جیسی بیع سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بیع سلم کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص پیشگی رقم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنی مدت کے بعد اتنے من کھجوریں درکار ہیں۔بیع سلم کے اعتبار سے ایسا کرنا جائز ہے۔ اس میں یہ بحث نہیں ہوگی کہ کہاں سے لاکر دے گا، اس کے پاس باغ وغیرہ ہے یا نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص پیشگی رقم دیتے وقت کہتا ہے کہ فلاح باغ کے فلاں درختوں پر لگی ہوئی کھجوریں درکار ہیں۔ ایسا کرنا جائز نہیں جب تک کھجوروں میں کھانے کی صلاحیت ظاہر نہ ہوجائے۔ باغ اور درخت کے تعین سے نقصان اور دھوکے کا اندیشہ ہے،اس لیے ایسا سودا جائز نہیں ہوگا۔ (2) امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فروخت کار کے پاس کسی چیز کی اصل کا نہ ہونا اس وقت فائدہ مند ہے جب عام پھل فراہم کرنے کا سودا لیکن جب کسی خاص باغ کے خاص درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کا سودا ہوگا تو اصل ہونے کے باوجود اس وقت تک سودا جائز نہیں ہوگا جب تک اس پھل میں صلاحیت پیدا نہ ہوجائے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالبختری طائی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ درخت پر پھل کو بیچنے سے آنحضرت ﷺ نے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جاسکے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا چیز وزن کی جائے گی۔ اس پر ابن عباس ؓ کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اندازہ کرنے کے قابل ہو جائے اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے کہ ابوالبختری نے کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے منع کیا تھا۔ پھر یہی حدیث بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس کی پختگی نہ کھل جائے اس وقت تک سلم جائز نہیں کیوں کہ یہ سلم خاص درختوں کے پھل پر ہوئی۔ اگر مطلق کھجور میں کوئی سلم کرے تو وہ جائز ہے۔ گو درخت پر پھل نکلے بھی نہ ہوں۔ یا مسلم الیہ کے پاس درخت بھی نہ ہوں۔ اب بعض نے کہا کہ یہ حدیث درحقیقت بعد والے باب سے متعلق ہے۔ بعض نے کہا اسی باب سے متعلق ہے اور مطابقت یوں ہوتی ہے کہ جب معین درختوں میں باوجود درختوں کے سلم جائز نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ درختوں کے وجود سے سلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر درخت نہ ہوں جو مال کی اصل ہیں جب بھی سلم جائز ہوگی۔ باب کا یہی مطلب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakhtari At-Tai (RA): I asked Ibn 'Abbas (RA) about Salam for (the fruits of) date-palms. He replied "The Prophet (ﷺ) forbade the sale a dates on the trees till they became fit for eating and could be weighed." A man asked what to be weighed (as the dates were still on the trees). Another man sitting beside Ibn 'Abbas (RA) replied, "Till they are cut and stored." Narrated Abu Al-Bakhtari (RA): I heard Ibn Abbas (RA) (saying) that the Prophet (ﷺ) forbade ... etc. as above. ________