تشریح:
(1) سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا اور اس کے عوض اجرت لینا جائز ہے جیسا کہ اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ دم کرنے والے نے تیس بکریاں لینے پر معاملہ طے کیا تھا۔ان بکریوں کا مالک وہ اکیلا تھا، البتہ ان کو تقسیم کرنا صرف اخلاقی طور پر مستحسن تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تسلی کے لیے فرمایا:’’ان بکریوں میں میرا بھی حصہ رکھو۔‘‘ تاکہ انھیں مزید یقین ہوجائے کہ مذکورہ مال ان کے لیے حلال اور پاکیزہ ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآنی آیات کو جھاڑ پھونک یادم کے طور پر پڑھنا جائز ہے، اسی طرح وہ منتر جس کے الفاظ قرآن وحدیث میں نہیں آئے لیکن ان کا مفہوم واضح ہے اور وہ قرآن وحدیث کے خلاف نہیں انھیں عمل میں لانا بھی جائز ہے۔ (3) تعلیم قرآن پر اجرت کے متعلق ہمارا رجحان یہ ہے کہ یہ جائز ہے اور اجرت قرآن پڑھانے کی نہیں ہوتی بلکہ معلم کو پابند کرنے کے عوض ہوتی ہے کیونکہ یہ پابندی اسے باندھ دیتی ہے اور وہ آسانی کے ساتھ کہیں آجا نہیں سکتا۔ اس بنا پر اسے جو کچھ دیاجائے گا وہ اس کے کام کی اجرت نہیں بلکہ اس وقت کا معاوضہ ہے جو اس نے تعلیم قرآن کےلیے دیا ہے، اس بنا پر جہاں اس کے متعلق سخت وعید ہے اس کا محل کچھ اور ہے اور جس چیز کی اجرت مباح کی گئی ہے اس کی صورت اور ہے۔ والله أعلم.(4) آخر میں امام بخاری ؒ نے اس حدیث کی ایک مزید سند ذکر کی ہے جسے امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے روایت کیا ہےلیکن اس میں تصریح سماع نہیں۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث:5749) اس بنا پر ہم نے امام ترمذی کا حوالہ دیا ہے کیونکہ اس میں تصریح سماع ہے۔ ( جامع الترمذي، الطب، حدیث:2064)