Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: The urine of children)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
228.
حضرت ام قیس بنت محصن ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئیں جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا تو اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا لیکن اسے دھویا نہیں۔
تشریح:
1۔ ان احادیث میں بچوں کے پیشاب کا حکم بیان ہوا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پیشاب بچے کا ہو یا بچی کا دونوں ہی ناپاک ہیں، البتہ حالات وظروف کے پیش نظر بچے کے پیشاب کے متعلق تخفیف ہے۔ بچہ اگر پیشاب کردے تو س پر پانی چھڑک دینا کافی ہے، البتہ بچی کے پیشاب کو دھونا ہوگا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں اس کی صراحت منقول ہے: ’’بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور بچی کے پیشاب کو دھویاجائے۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 377) لیکن بچے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ دودھ کے علاوہ اور کوئی غذا نہ کھاتاہو۔ حضرت لبابہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچی کا پیشاب دھویاجائے اور بچے کے پیشاب پر پانی چھڑک دیا جائے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث 375) حضرت ابوالسمح کی روایت میں بچے کے پیشاب پر رش کرنے کے الفاظ ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 376) واضح رہے کہ نضح کا استعمال جب کپڑے کے ساتھ ہو تو اس سےمراد تھوڑا تھوڑا پانی بہانا ہوتا ہے، جسے رش (چھڑکنا) بھی کہاجاتا ہے۔ 2۔ لڑکے کے پیشاب کے لیے طریقہ تطہیر میں تخفیف کیوں رکھی گئی ہے؟ اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کے ساتھ تعلق خاطر زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لڑکے کواٹھانے والے والدین کے علاوہ دیگرخویش واقارب اور دوست احباب بہت ہوتے ہیں جبکہ لڑکی کو اٹھانے والے اس کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، جب کسی معاملے میں ابتلاء زیادہ ہو تو شریعت اس پر تخفیف کردیتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس توجیہ کو قوی قراردیا ہے۔ (فتح الباري:427/1) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ لڑکے کے مزاج میں حرارت (گرمی) غالب ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں لطافت ہوتی ہے، اس لطافت کی وجہ سے صرف پانی کا بہادینا کافی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے پیشاب کے اجزاء کپڑے سے نکل جائیں گے، لیکن لڑکی کے مزاج میں برودت (ٹھنڈک) کی وجہ سے کثافت ہوتی ہے، اس بنا پر اس کے پیشاب میں بھی کثافت کے اثرات ہوتے ہیں جو صرف پانی کے بہاؤ سے زائل نہیں ہوتے جب تک انھیں اچھی طرح دھویا نہ جائے۔ بعض حضرات لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں فرق نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں کہ دونوں کی طہارت دھونے سے ہوگی، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ آپ نے پیشاب پر پانی بہادیا اور اسے دھویا نہیں۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 662 (286) ) اور ام قیس والی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی چھڑکنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:665 (287) ) بلکہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے ایک ہی دفعہ اس پر پانی بہایا۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:663(286)) لیکن اصلاحی صاحب کے تدبر کا نتیجہ بایں الفاظ ظاہر ہوتا ہے: ’’یہ بات کہ لڑکے اور لڑکیوں کے پیشاب میں کوئی فرق نہیں تو اس کی کوئی علت نہیں۔‘‘ (تدبر حدیث:305/1) ہم نے وضاحت کی ہے کہ یہ رخصت اس وقت تک کے لیے ہے جب بچہ دودھ کے علاوہ اور کوئی چیز نہ کھاتا ہو لیکن اصلاحی صاحب کی سنیے فرماتے ہیں:’’ یہ بات کہ بچہ ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا کس کی وضاحت ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بات آنحضرت ﷺ نے نہیں فرمائی۔ یہ بات بچے کی ماں نے کہی یا ابن شہاب نے گھسائی ہے اوراپنا فقہی مذہب روایت میں ڈال دیا ہے۔‘‘ (تدبر حدیث:315/1) ہم عرض کریں گے کہ اس کج بحثی کی یہاں ضرورت ہی کیا ہے کہ کھانا نہ کھانے کی وضاحت کس نے کی ہے؟ اصل مسئلہ توحدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ شیر خوار بچے کے پیشاب پر پانی کا بہا دینا یا چھڑک دینا کافی ہے۔ اس کی بابت اصلاحی صاحب کا ’’تدبر‘‘ خاموش ہے، حالانکہ اصل ضرورت تو مسئلے کی نوعیت کو واضح کرنا ہے وہ ان کے’’ تدبر‘‘ میں کہیں بھی نہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان صاحب کا مقصد احادیث کی تشریح وتوضیح نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ ان میں شکوک وشبہات پیدا کرکے یا امام زہری کے خلاف زہر افشانی کرکے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا جائے۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
225
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
223
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
223
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
223
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ام قیس بنت محصن ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئیں جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا تو اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا لیکن اسے دھویا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ان احادیث میں بچوں کے پیشاب کا حکم بیان ہوا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پیشاب بچے کا ہو یا بچی کا دونوں ہی ناپاک ہیں، البتہ حالات وظروف کے پیش نظر بچے کے پیشاب کے متعلق تخفیف ہے۔ بچہ اگر پیشاب کردے تو س پر پانی چھڑک دینا کافی ہے، البتہ بچی کے پیشاب کو دھونا ہوگا۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں اس کی صراحت منقول ہے: ’’بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکا جائے اور بچی کے پیشاب کو دھویاجائے۔‘‘(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 377) لیکن بچے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ دودھ کے علاوہ اور کوئی غذا نہ کھاتاہو۔ حضرت لبابہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچی کا پیشاب دھویاجائے اور بچے کے پیشاب پر پانی چھڑک دیا جائے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث 375) حضرت ابوالسمح کی روایت میں بچے کے پیشاب پر رش کرنے کے الفاظ ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 376) واضح رہے کہ نضح کا استعمال جب کپڑے کے ساتھ ہو تو اس سےمراد تھوڑا تھوڑا پانی بہانا ہوتا ہے، جسے رش (چھڑکنا) بھی کہاجاتا ہے۔ 2۔ لڑکے کے پیشاب کے لیے طریقہ تطہیر میں تخفیف کیوں رکھی گئی ہے؟ اس کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کے ساتھ تعلق خاطر زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ لڑکے کواٹھانے والے والدین کے علاوہ دیگرخویش واقارب اور دوست احباب بہت ہوتے ہیں جبکہ لڑکی کو اٹھانے والے اس کے مقابلے میں کم ہوتے ہیں، جب کسی معاملے میں ابتلاء زیادہ ہو تو شریعت اس پر تخفیف کردیتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس توجیہ کو قوی قراردیا ہے۔ (فتح الباري:427/1) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ لڑکے کے مزاج میں حرارت (گرمی) غالب ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے مزاج میں لطافت ہوتی ہے، اس لطافت کی وجہ سے صرف پانی کا بہادینا کافی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے پیشاب کے اجزاء کپڑے سے نکل جائیں گے، لیکن لڑکی کے مزاج میں برودت (ٹھنڈک) کی وجہ سے کثافت ہوتی ہے، اس بنا پر اس کے پیشاب میں بھی کثافت کے اثرات ہوتے ہیں جو صرف پانی کے بہاؤ سے زائل نہیں ہوتے جب تک انھیں اچھی طرح دھویا نہ جائے۔ بعض حضرات لڑکے اور لڑکی کے پیشاب میں فرق نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں کہ دونوں کی طہارت دھونے سے ہوگی، حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ آپ نے پیشاب پر پانی بہادیا اور اسے دھویا نہیں۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 662 (286) ) اور ام قیس والی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی چھڑکنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:665 (287) ) بلکہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے ایک ہی دفعہ اس پر پانی بہایا۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث:663(286)) لیکن اصلاحی صاحب کے تدبر کا نتیجہ بایں الفاظ ظاہر ہوتا ہے: ’’یہ بات کہ لڑکے اور لڑکیوں کے پیشاب میں کوئی فرق نہیں تو اس کی کوئی علت نہیں۔‘‘ (تدبر حدیث:305/1) ہم نے وضاحت کی ہے کہ یہ رخصت اس وقت تک کے لیے ہے جب بچہ دودھ کے علاوہ اور کوئی چیز نہ کھاتا ہو لیکن اصلاحی صاحب کی سنیے فرماتے ہیں:’’ یہ بات کہ بچہ ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا کس کی وضاحت ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بات آنحضرت ﷺ نے نہیں فرمائی۔ یہ بات بچے کی ماں نے کہی یا ابن شہاب نے گھسائی ہے اوراپنا فقہی مذہب روایت میں ڈال دیا ہے۔‘‘ (تدبر حدیث:315/1) ہم عرض کریں گے کہ اس کج بحثی کی یہاں ضرورت ہی کیا ہے کہ کھانا نہ کھانے کی وضاحت کس نے کی ہے؟ اصل مسئلہ توحدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ شیر خوار بچے کے پیشاب پر پانی کا بہا دینا یا چھڑک دینا کافی ہے۔ اس کی بابت اصلاحی صاحب کا ’’تدبر‘‘ خاموش ہے، حالانکہ اصل ضرورت تو مسئلے کی نوعیت کو واضح کرنا ہے وہ ان کے’’ تدبر‘‘ میں کہیں بھی نہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان صاحب کا مقصد احادیث کی تشریح وتوضیح نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ ان میں شکوک وشبہات پیدا کرکے یا امام زہری کے خلاف زہر افشانی کرکے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا جائے۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں مالک نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ (بن مسعود) سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں، وہ ام قیس بنت محصن نامی ایک خاتون سے کہ وہ رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں اپنا چھوٹا بچہ لے کر آئیں۔ جو کھانا نہیں کھاتا تھا۔ ( یعنی شیرخوار تھا ( رسول کریم ﷺ نے اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس بچے نے آپ ﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ آپ ﷺ نے پانی منگا کر کپڑے پر چھڑک دیا اور اسے نہیں دھویا۔
حدیث حاشیہ:
شیرخواربچہ جس نے کچھ بھی کھانا پینا نہیں سیکھا ہے، اس کے پیشاب پر پانی کے چھینٹے کافی ہیں۔ مگریہ حکم صرف مرد بچوں کے لیے ہے۔ بچیوں کا پیشاب بہرحال دھونا ہی ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Qais bint Mihsin (RA): I brought my young son, who had not started eating (ordinary food) to Allah's Apostle (ﷺ) who took him and made him sit in his lap. The child urinated on the garment of the Prophet (ﷺ), so he asked for water and poured it over the soiled (area) and did not wash it.