تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر حیض کے مسائل بیان کرنے کے لیے نہیں صرف خون کو دھونے کے اثبات کے لیے یہ حدیث لائے ہیں کیونکہ مسائل حیض آئندہ کتاب الحیض میں بیان ہوں گے۔ عورتوں کو تین طرح کے خون آتے ہیں۔ خون حیض خون استحاضہ اور خون نفاس ان تینوں کے احکام الگ الگ ہیں جو آئندہ بیان ہوں گے۔ اس مقام پر چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ استحاضہ کا خون رگ پھٹنے سے آتا ہے، جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہو تا ہے جب رگوں میں خون زیادہ بھرجاتا ہے تو وہ پھٹ جاتی ہیں جس سے خون جاری ہوجاتا ہے۔ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اس کی تین وجوہات بیان فرمائی ہیں آپ نے فرمایا: ’’یہ خون رکضہ شیطان یا انقطاع رگ یا کسی بیماری کے لاحق ہونے سے آتا ہے۔‘‘ (مسند أحمد:464/6) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استحاضہ کی صورت انقطاع عرق اور بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے، یعنی غیر طبعی خون کبھی فساد و مزاج کے سبب اور کبھی امتلائے عروق کی وجہ سے خارج ہوتا ہے اور کبھی خون استحاضہ کی وجہ رکضہ شیطان بنتی ہے۔ علماء نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ شیطان کو موقع ملتا ہے کہ عورت کو التباس میں ڈال دے تاکہ یہ ایک دینی معاملے میں مغالطے کا شکار ہو جائے کہ وہ خود کو نماز کے قابل خیال نہ کرے یا نماز کا اہل تصور کرے۔ لیکن بعض علماء نے مذکورہ تاویل اور مفہوم سے اتفاق نہیں کیا اور کضۃ شیطان کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا ہے یعنی شیطان کے کچوکہ مارنے سے بھی بعض دفعہ استحاضے کا خون جاری ہو جاتا ہے۔
2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جسے بار بار ہوا یا پیشاب آنے کی بیماری ہو وہ بھی ہر نماز کے لیے تازہ وضو کر کے اسے ادا کرتا رہے، کیونکہ مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت تازہ وضو کی صراحت حدیث میں موجود ہے، اگرچہ امام مسلم نے اس لفظ کے متعلق اپنے تردد کا اظہار کیا ہے اور فرمایا کہ حدیث حماد بن زید میں ایک لفظ کے اضافے کے پیش نظر ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:754۔ (333)) امام مسلم کا اشارہ اسی لفظ ''توضئي" کی طرف ہے جو کسی قسم کے تردد یا تفرد کے بغیر صحیح ثابت ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ہشام رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے روایت کے آخر میں اسے بیان کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لفظ مذکور کی صحت کا اقرارکیا ہے۔ (فتح الباري:433/1) اس لفظ کا تقاضا ہے کہ مستقل عذر والے مرد یا عورت کو ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا ہوگا اور اس نماز سے متعلقہ سنن ونوافل بھی اس وضو سے پڑھے جا سکتے ہیں۔ نماز ادا کرنے کے بعد وضو خود بخود ختم ہو جائے گا جبکہ احناف اور حنابلہ کا موقف ہے کہ ہر وقت نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہے اور اس وقت کے اندر جتنے چاہے فرائض ونوافل پڑھ لے، خواہ وہ اس نماز سے غیر متعلق ہی کیوں نہ ہوں، اس دوران میں فوت شدہ نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مالکی حضرات کے نزدیک یہ وضو اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک اسے کوئی ناقض وضو لا حق نہ ہو۔ یہ مستقل شرعی عذر اس کے لیے ناقض نہیں ہو گا۔ بہرحال حدیث کے الفاظ کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ اس طرح کے مستقل شرعی عذر والے کے لیے ہر نماز نئے وضو سے اداکرنی ہو گی۔ باقی تاویلات اس لفظ کے منافی ہیں۔ لیکن اس مقام پر ’’تدبر‘‘ کی آڑ میں حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ ’’امام تدبر‘‘ فرماتے ہیں: ’’لیکن فی الواقع اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرے جبکہ ازروئے شریعت وہ پاک ہے، ایک بیماری کی بنیاد پر یہ پابندی کیوں عائد کر دی جائے کہ وہ وضو کے بارے میں دین کی ایک رخصت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی؟ اس معاملہ میں صفائی کے نقطہ نظر سے بھی اس کی کوئی خاص اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔‘‘ (تدبر حدیث:320/1) بعض حضرات نے ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کے حکم کو حضرت عروہ کا کلام قراردیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ حضرت عروہ کا فتوی ہوتا تو(تَتَوَضَّأُ) کہا جاتا کہ وہ عورت وضو کرے لیکن صیغہ خطاب کا استعمال اس امر کی دلیل ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے اور رسول اللہ ﷺ کا کلام ہے۔ (فتح الباري:433/1)
3۔ حدیث میں حیض سے متعلق حکم کا دارومدار اس کے اقبال وادبار پر ہے۔ اس کی علامت کیا ہے اس کے متعلق دو موقف ہیں: (1)۔ شوافع کے نزدیک اس کی تمیز الوان سے ہوتی ہے، یعنی گہرا سرخ رنگ جو سیاہی مائل ہو وہ حیض کا خون ہے، کیونکہ حدیث میں رنگ کو حیض کی علامت قراردیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ حیض کا خون سیاہ رنگ سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:286) اس لیے حیض کا خون اپنے رنگ کی وجہ سے استحاضہ کے خون سے ممتاز ہے اور اس کے آنے جانے سے پتہ چلتا رہے گا کہ حیض کا آغاز اور اختتام کب ہوا۔ (2)۔ احناف کے نزدیک اقبال وادبار کا اعتبار عورت کی عادت سے ہو گا، یعنی عورت کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ایام کب شروع ہوتے اور کب انتہا کو پہنچتے ہیں، یعنی اقبال و ادبار کو اس کی عادت سے پہچانا جائے گا، کیونکہ حدیث میں ہے کہ وہ ان ایام کے شمار پر نظر رکھے جو ہر مہینے اس کے حیض کے لیے مخصوص ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:274) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں ایک روایت بایں الفاظ نقل کی ہے کہ جتنے دن اسے حیض آتا ہے اس کی مقدار نماز چھوڑدے، یعنی ان دنوں میں نماز نہ پڑھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:754 (333)) حاصل کلام یہ ہے کہ عورت اگر معتادہ ہے، یعنی اپنی عادت کو پہچانتی ہے تو اقبال وادبار کا حال حسب عادت ہوگا اور اگر غیر معتادہ یا (مُبدِئَة) ہے تو رنگ وغیرہ سے اس کی پہچان ہوگی۔
نوٹ: اس کے متعلق دیگر مباحث کتاب الحیض میں بیان ہوں گے۔