تشریح:
(1) ہر پیغمبر کا یہ منصب ہے کہ وہ اہل ایمان کا سب سے زیادہ خیر خواہ ہوتا ہے، اس کے بعد اسلامی حکومت پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ قرض چھوڑنے والوں کا قرض اتارنے کا بندوبست کرے، بشرطیکہ اس کا ترکہ قرض کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہو۔(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض انتہائی بری بلا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی موجودگی میں نماز جنازہ نہیں پڑھائی، نیز آپ ﷺ قرض سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے۔اگر کسی مجبوری کی وجہ سے قرض لینا پڑے تو اس کی ادائیگی کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے۔اگر اسے ادا کرنے کی نیت ہے تو اللہ تعالیٰ مقروض کی مدد کرتا ہے اور اگر دل میں قرض کی ادائیگی کے متعلق فتور ہے تو ایسے ظالم انسان کی اللہ مدد نہیں کرتا۔