قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الوَكَالَةِ (بَابُ إِذَا وَهَبَ شَيْئًا لِوَكِيلٍ أَوْ شَفِيعِ قَوْمٍ جَازَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لِوَفْدِ هَوَازِنَ حِينَ سَأَلُوهُ المَغَانِمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «نَصِيبِي لَكُمْ»

2307. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ وَزَعَمَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ بِذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعُوا إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا.

مترجم:

ترجمۃ الباب:

کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ ہوازن کے وفد سے فرمایا، جب انہوں نے غنیمت کا مال واپس کرنے کے لیے کہا تھا۔ تو نبی کریم ﷺے فرمایا کہ ” میرا حصہ تم لے سکتے ہو۔ “ تشریح : حافظ نے کہا یہ حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو ابن اسحاق نے مغازی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓسے نکالا ہے۔ ہوازن قیر کے ایک قبیلے کا نام تھا۔ ابن منیر نے کہا گو بظاہر یہ ہبہ ان لوگوں کے لیے تھاجو اپنی قوم کی طرف سے وکیل اور سفارشی بن کر آئے تھے، مگر درحقیقت سب کے لیے ہبہ تھا، جو حاضر تھے ان کے لیے بھی اور جو غائب تھے ان کے لیے بھی۔ خطابی نے کہا اس سے یہ نکلتا ہے کہ وکیل کا اقرار موکل پر نافذ ہوگا اور امام مالکو شافعی نے کہا وکیل کا اقرار موکل پر نافذ نہ ہوگا۔ ( وحیدی ) اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی انسان پروری پر روشنی پڑتی ہے کہ آپ نے ازراہ مہربانی جملہ سیاسی قیدیوں کو معافی دے کر سب کو آزاد فرما دیا۔ اور اس حدیث سے صحابہ کرام کے ایثار اور اطاعت رسول ﷺپر بھی روشنی پڑتی ہے کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کی مرضی معلوم کرکے ایثار کا بے مثال نمونہ پیش کردیا کہ اس زمانہ میں غلام قیدی بڑی دولت سمجھے جاتے تھے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ پاکر وہ سب اپنے اپنے قیدیوں کو آزاد کر دینے کے لیے آمادہ ہو گئے اور دنیاوی نفع و نقصان کا ذرہ برابر بھی خیال نہیں کیا۔ حضرت امام الدنیا فی الحدیث کا منشاءباب یہ ہے کہ جب کوئی اجتماعی معاملہ درپیش ہو تو انفرادی طور پر بات چیت کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر قوم کے نمائندے طلب کرنا اور ان سے بات چیت کرنا مناسب ہے۔ کسی قوم کا کوئی بھی قومی مسئلہ ہو اسے ذمہ دار نمائندوں کے ذریعہ حل کرنا مناسب ہوگا۔ وہ نمائندے قومی وکیل ہوں گے اور کوئی قومی امانت وغیرہ ہو تو وہ ایسے ہی نمائندوں کے حوالہ کی جائے گی۔

2307.

حضرت مروان بن حکم ؓ اور حضرت مسور بن مخرمہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب وفد ہوازن مسلمان ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان کے قیدی اور اموال انھیں واپس کردیے جائیں تو رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر ان سے فرمایا: ’’سچ بات کہنا مجھے پسند ہے۔ تم دو باتوں میں سے ایک کا انتخاب کرلو۔ قیدی واپس لے لو یا اپنے مال کو اختیار کرلو۔ میں نے ان کے بارے میں خاصا توقف کیا تھا۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب طائف سے لوٹےتو دس راتوں سے زیادہ ان کا انتظار کیا۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ ان کو صرف ایک چیز واپس کریں گےتو انھوں نے کہا: ہم اپنے قیدی واپس لینے کو اختیار کرتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سے خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کے شایان شان تعریف بیان کی، پھر فرمایا: أمابعد !تمھارےبھائی تائب ہو کر تمھارےپاس آئے ہیں اور میری رائے یہ ہے کہ ان کے قیدی انھیں واپس کردیے جائیں۔ تم میں سے جو شخص خوش دلی سے اس کو پسندکرےتو قیدی واپس کردے اور جو کوئی یہ پسند کرتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے، تاآنکہ جو اول مال غنیمت آئے ہم اس میں سے اسےمعاوضہ دیں تو وہ بھی قیدی واپس کردے۔ چنانچہ سب مسلمانوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کی خاطر خوشی سے ان کو قیدی واپس کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمیں معلوم نہیں ہو رہا کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی۔ واپس چلے جاؤ، تمھارے فیصلے سے تمھارے سردار ہمیں آگاہ کریں۔‘‘ وہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ ان کے سرداروں نے ان سے گفتگوکی، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو آگاہ کیا کہ وہ خوش ہیں اور انھوں نے قیدی واپس کرنے کی اجازت دے دی ہے۔