تشریح:
(1) قبیلۂ ہوازن کا جو وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا وہ ان کا وکیل بھی تھا اور قیدیوں کو واپس کرانے میں سفارشی بھی تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی سفارش قبول کرتے ہوئے قیدیوں میں سے اپنا حصہ انھیں واپس کردیا اور باقی قیدیوں کے متعلق لوگوں سے بات کی۔تمام مسلمانوں نے خوش دلی سے قیدی واپس کردیے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ بظاہر یہ ہبہ ان لوگوں کے لیے تھا جو اپنی قوم کی طرف سے وکیل اور سفارشی بن کرآئے تھے مگر در حقیقت یہ ہبہ سب کے لیے تھا جو حاضر تھے ان کے لیے بھی اور جو غائب تھے ان کے لیے بھی۔ (3) اس سے معلوم ہوا کہ الفاظ مقاصد پر وارد ہوتے ہیں، ظاہر صورتوں پر نہیں، اس بنا پر اگر کوئی غیر کے لیے ہبہ کی سفارش کرے اور سفارشی سے کہا جائے کہ یہ چیز تیرے لیے ہبہ کردی گئی ہے تو سفارشی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ظاہر الفاظ کا اعتبار کرتے ہوئے اپنے لیے ہبہ رکھ لے بلکہ وہ اس کے لیے ہوگا جس کے لیے اس نے سفارش کی تھی۔ (فتح الباري:610/4) (4) اس ھدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب کوئی اجتماعی معاملہ درپیش ہوتو انفرادی طور پر بات چیت کرنے کے بجائے اجتماعی طور پر قوم کے نمائندے طلب کرنا اور ان سے گفتگو کرنا مناسب ہے۔کوئی قومی مسئلہ ہوتو قومی نمائندوں کے ذریعے سے اسے حل کیا جائے۔وہ نمائندے قومی وکیل ہوں گے اور کوئی قومی امانت بھی ان کے ذریعے سے قوم کے حوالے کی جائے گی۔ بہر حال اجتماعیت کے بہت فوائد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے متعدد مواقع پر بہت اہمیت دی ہے۔