تشریح:
(1) اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ جب مہاجرین مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انصار نے ازراہ ہمدردی، اخوت کی بنا پر اپنی زمینوں اور باغات کو مہاجرین میں تقسیم کردینے کی پیشکش کی لیکن رسول اللہ ﷺ کو یقین تھا کہ آئندہ فتوحات ہوں گی، مسلمان ترقی کریں گے، انھیں غنیمت کے طور پر زمین اور باغات ملیں گے، اس لیے آپ نے مدینہ طیبہ کی زمین اور باغات انصار کے پاس رہنے کو مناسب خیال کیا، البتہ دوسری تجویز سے اتفاق کیا کہ کھیت اور باغات انصار کے پاس رہیں، اس میں محنت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری مہاجرین اٹھائیں، اس شرکت کار سے مہاجرین پیداوار میں اپنا حصہ وصول کریں گے۔ اس تجویز سے اتفاق کیا گیا۔ (2) مزارعت کے ابواب میں اس حدیث کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کاشت کاری کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ زمین یا باغ کا مالک کسی دوسرے کو اس شرط پر شریک کرے کہ وہ کھیت میں محنت اور باغ کی نگرانی کرے گا، اس طرح پیداوار اور پھل کو اسلامی دستور کے مطابق تقسیم کرلیا جائے گا۔ محنت کرنے والے کا کتنا حصہ ہو، اس کا تعلق حالات وظروف پر ہے۔ اگر پانی وغیرہ آسانی سے دستیاب ہے تو حصہ کم ہوسکتا ہے اور اگر اس کے برعکس پانی کی فراہمی مشکل ہے اور اسے محنت زیادہ کرنی پڑتی ہوتو حصہ زیادہ ہوسکتا ہے ہے۔ عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ حصے کا تعین حالات وظروف کے اعتبار سے کیا جائے۔ والله أعلم.