تشریح:
(1) اگرچہ اس روایت میں غلام کے الفاظ نہیں ہیں، البتہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں، (صحیح البخاري، النکاح، حدیث:5188) امام بخاری ؒ نے انہی الفاظ سے استنباط کیا ہے کہ خادم سے اپنے مالک کے مال کے متعلق باز پرس ہو گی، آیا اس کے حکم کے مطابق عمل کیا یا اس سے تجاوز کیا۔ (فتح الباري:87/5) (2) اس حدیث میں ایک اہم معاشرتی اصول بیان ہوا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں نہ ہوں، ان ذمہ داریوں کا احساس کر کے انہیں صحیح طور پر ادا کرنا اس کا عین فرض ہے، لہذا جن افراد کے نام حدیث میں مذکور ہیں صرف وہی مراد نہیں لیے جائیں گے بلکہ اس کے دائرے کو آپ جتنا وسیع کرنا چاہیں کر سکتے ہیں، چنانچہ ایک دفتر کا انچارج اپنی اور ماتحت عملے کی ڈیوٹی کے بارے میں، کارخانے، فیکٹری کا مالک اپنے کارکنوں کے بارے میں مسئول ہو گا۔ بہرحال ایک نوکر، غلام اور مزدور کا فرض ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے فرائض پوری طرح ادا کرے۔