ترجمۃ الباب:
حضرت جابر ؓ سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صدقہ کرنے والے کے صدقے کو رد کردیا جبکہ ابھی اس پر پابندی نہیں لگی تھی اس کے بعد اسے ایسی یعنی تنگ دستی کی حالت میں اس اقدام س منع کیا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کے ذمے کسی کا کچھ مال باقی ہے اور اس کے پاس ایک غلام کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور وہ اسے آزاد کردے تو اس کا آزاد کرناجائز نہیں۔
فائدہ:بے وقوف وہ شخص ہے جو خلاف شرع کام کرے اور نفسانی خواہش کے پیش نظر ایسے کام کرے جسے عقل مند لوگ اچھا خیال نہ کریں، مثلاً: گندی اور فحش ویڈیو دیکھے، گانے سنے اور لہو ولعب میں مال ضائع کرے یاکبوتر بازی کے لیے مہنگی قیمت سے کبوتر خریدے وغیرہ۔ اور کم عقل وہ شخص ہوتا ہے جو غفلت کے باعث اپنے مال کو بے جا خرچ کرے، یعنی کم عقل، بے وقوف سے عام ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ بیوقوف یا کم عقل پر اگر حکومت کی طرف سے پابندی نہ بھی ہوتو بھی کوئی دوسرا شخص پا بندی عائد کرسکتا ہے جیسا کہ بے وقوف کے سرپرست بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّـهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا" "اور تم اپنے وہ مال نادانوں کے سپرد نہ کرو جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے متاع حیات بنایا ہے، البتہ ان میں سے انھیں کھلاؤ، پہناؤ اور جب ان سے بات کرو تو اچھی بات کرو جس سے ان کو فائدہ ہو۔ "اگر حکومت پابندی عائد کردے تو اسے قانونی حیثیت ہوجاتی ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک صحابی کوئی چیز خریدتے وقت دھوکا کھا جایا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب تو خریدارى کرے تو یہ کہہ دے کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ پس وہ اسی طرح کہا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے کم تجربہ ہونے کے باوجود اس شخص پر کوئی پابندی نہیں لگائی، حالانکہ سامان خریدنا ان سے نہیں آتا تھا۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔