قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الخُصُومَاتِ (بَابُ مَنْ رَدَّ أَمْرَ السَّفِيهِ وَالضَّعِيفِ العَقْلِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ حَجَرَ عَلَيْهِ الإِمَامُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَيُذْكَرُ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَدَّ عَلَى المُتَصَدِّقِ قَبْلَ النَّهْيِ، ثُمَّ نَهَاهُ» وَقَالَ مَالِكٌ: «إِذَا كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى رَجُلٍ مَالٌ، وَلَهُ عَبْدٌ لاَ شَيْءَ لَهُ غَيْرُهُ فَأَعْتَقَهُ، لَمْ يَجُزْ عِتْقُهُ» وَمَنْ بَاعَ عَلَى الضَّعِيفِ وَنَحْوِهِ، فَدَفَعَ ثَمَنَهُ إِلَيْهِ، وَأَمَرَهُ بِالإِصْلاَحِ وَالقِيَامِ بِشَأْنِهِ، فَإِنْ أَفْسَدَ بَعْدُ مَنَعَهُ لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺنَهَى عَنْ إِضَاعَةِ المَالِ وَقَالَ لِلَّذِي يُخْدَعُ فِي البَيْعِ: «إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لاَ خِلاَبَةَ» وَلَمْ يَأْخُذِ النَّبِيُّ ﷺ مَالَهُ

2414. حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ رَجُلٌ يُخْدَعُ فِي الْبَيْعِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ لَا خِلَابَةَ فَكَانَ يَقُولُهُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ایک شخص کا صدقہ رد کر دیا، پھر اس کو ایسی حالت میں صدقہ کرنے سے منع فرمادیا اور امام مالک  نے کہا کہ اگر کسی کا کسی دوسرے پر قرض ہو اور مقروض کے پاس صرف ایک ہی غلام ہو۔ اس کے سوا اس کے پاس کچھ بھی جائیداد نہ ہو تو اگر مقروض اپنے اس غلام کو آزاد کردے تو اس کی آزادی جائز نہ ہوگی۔ اور اگر کسی نے کسی کم عقل کی کوئی چیز بیچ کر اس کی قیمت اسے دے دی اور اس نے اپنی اصلاح کرنے اور اپنا خیال رکھنے کے لیے کہا، لیکن اس نے اس کے باوجود مال بربا دکر دیا تو اسے اس کے خرچ کرنے سے حاکم روک دے گا۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور آپ نے اس شخص سے جو خریدتے وقت دھوکا کھا جایا کرتا تھا فرمایا تھا کہ جب تو کچھ خرید و فروخت کرے تو کہا کر کہ کوئی دھوکے کا کام نہیں ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مال اپنے قبضے میں نہ لیا۔ تشریح : حضرت جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث کو عبد بن حمید نے نکالا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک شخص ایک مرغی کے انڈے کے برابر سونے کا ایک ڈالا لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں آیا اور کہنے لگا کہ آپ بطور صدقہ اسے میری طرف سے قبول فرمائیے۔ واللہ ! میرے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اس نے پھر یہی کہا۔ آخر آپ نے وہ ڈالا اس کی طرف پھینک دیا اور فرمایا تم میں کوئی نادار ہوتا ہے اور اپنا مال جس کے سوا اس کے پاس کچھ اور نہیں ہوتا خیرات کرتا ہے۔ پھر خالی ہو کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھرتا ہے۔ یہ خیرات کسی حالت میں بھی پسندیدہ نہیں ہے۔ خیرات اس وقت کرنی چاہیے جب آدمی کے پا س خیرات کرنے کے بعد بھی مال باقی رہ جائے۔ اس حدیث کو ابوداؤد اور ابن خزیمہ نے نکالا ہے۔ یہ حدیث اسلام کے ایک جامع اصل الاصول کو ظا ہر کر رہی ہے کہ انسان کا دنیا میں محتاج اور تنگ دست بن کر رہنا عند اللہ کسی حال میں بھی محبوب نہیں ہے۔ اور خیرات و صدقات کا یہ نظریہ بھی صحیح نہیں کہ ایک آدمی اپنے سارے اثاثہ حیات کو خیرات کرکے پھر خود خالی ہاتھ بن کر بیٹھ جائے اور پھر لوگوں کے سامن ہاتھ پھیلاتا رہے۔ آیت قرآنی و لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک و لا تبسطہا کل البسط الآیۃ اس پر واضح دلیل ہے۔ ہاں بلاشک اگر کوئی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا ایمان و یقین اور توکل کا مالک ہو تو اس کے لیے سب کچھ جائز ہے۔ مگر یہ قطعاً ناممکن ہے کہ امت میں کوئی قیامت تک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مثیل پیدا ہو سکے۔ اس موقع پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے الفاظ مبارکہ ہمیشہ آب زر سے لکھے جائیں گے۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کیا خیرات لے کر آئے اور کیا گھر میں چھوڑ کر آئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا تھا کہ ترکت اللہ و رسولہ میں گھر میں اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، اورباقی سب کچھ لا کر حاضر کر دیا ہے۔ زبان حال سے گویا آپ نے فرمایا تھا ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین ( الانعام : 163 ) رضی اللہ عنہ و ارضاہ امت کے ان بدترین لوگوں پر ہزار نفرین جو ایسے فخر اسلام عاشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تبرا بازی کرتے اور بے حیائی کی حد ہوگئی کہ اس تبرا بازی کو کار ثواب جانتے ہیں۔ سچ ہے فاضلہم الشیطان بما کانوا یفسقون اس باب کے ذیل میں حافظ صاحب فرماتے ہیں و اشار البخاری بما ذکر من احادیث الباب الی التفصیل بین من ظہرت منہ الاضاعۃ فیرد تصرفہ فیما اذا کان فی الشی الکثیر وا المستغرق و علیہ تحمل قصۃ المدبر و بین ما اذا کان فی الشی الیسیر او جعل لہ شرطا یامن بہ من افساد مالہ فلا یرد ( فتح الباری ) یعنی باب میں مندرجہ احادیث سے مجتہد مطلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس تفصیل کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب مال کثیر ہو یا کوئی اور چیز جو خاص اہمیت رکھتی ہو اور صاحب مال کی طرف سے اس کے ضائع کردینے کا خطرہ ہو تو اس کا تصرف حکومت کی طرف سے اس میں رد کر دیا جائے گا۔ مدبر کا واقعہ اسی پر محمول ہے اور اگر تھوڑی چیز ہو یا کوئی ایسی شرط لگا دی گئی ہو جس سے اس مال کے ضائع ہونے کا ڈر نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کا تصرف قائم رہے گا اور وہ رد نہ کیا جاسکے گا۔ اصل مقصد مال کی حفاظت اور قرض خواہ وغیرہ اہل حقوق کو ان کے حقوق کا ملنا ہے یہ جس صورت ممکن ہو۔ یہ سلطان اسلام کی صوابدید سے متعلق چیز ہے۔

2414.

حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ ایک شخص کوخریدوفروخت میں دھوکا دیا جاتا تھا تو نبی کریم ﷺ نے اسے ہدایت فرمائی کہ جب خریدوفروخت کروتو لاخلابة کے الفاظ کہہ دیا کرو، یعنی اس میں دھوکا نہیں ہوگا، چنانچہ وہ (معاملہ کرتے وقت) یہ(الفاظ) کہہ دیتا تھا۔