تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث ذکر کی ہیں، ان میں جو مسئلہ زیر بحث ہے اس کے متعلق تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ جس شخص سے مال کا ضائع ہونا ظاہر ہو جائے اسے تصرفات سے روک دیا جائے اور اس پر پابندی لگا دی جائے بشرطیکہ مال کثیر ہو یا اس کی کل جائیداد کا احاطہ کیے ہوئے ہو جیسا کہ غلام آزاد کرنے والے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ اور جب کسی معمولی چیز میں تصرف کا معاملہ ہو اور اس سے مال کا ضائع ہونا ظاہر نہ ہوا ہو تو اسے تصرفات سے نہ روکا جائے جیسا کہ خریدوفروخت میں دھوکا کھانے والے کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:90/5) بہرحال کسی کمزور یا ضعیف العقل کا مال فروخت کر کے اس کی قیمت اس کے حوالے کر دینا اور اسے مشورہ دینا کہ اسے بہتر طور پر خرچ کرو یہ سب نیکی کے کام ہیں۔ بزرگوں کو چھوٹوں کے معاملات میں ایسا ہی کرنا چاہیے تاکہ وہ نیکی کے کاموں میں سوچ سمجھ کر خرچ کریں اور فضول خرچی میں اپنا مال ضائع نہ کریں۔ (2) واضح رہے کہ مذکورہ دونوں احادیث کی وضاحت پہلے ہو چکی ہے، یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جن باتوں سے لڑائی جھگڑا اور اختلاف پیدا ہو ان سے بچنا چاہیے کیونکہ اختلاف وغیرہ سے بغض اور کینہ پیدا ہوتا ہے جو انسان کی تباہی کا باعث ہے۔ واللہ المستعان