تشریح:
1۔ روایت میں ابو سلمہ سے عبداللہ بن عبد الرحمٰن بن عوف ؓ ہیں جنھیں اُم کلثوم بنت ابی بکر ؓ نے دودھ پلایا تھا، اس بنا پر وہ حضرت عائشہ ؓ کے رضاعی بھانجے ہیں۔ (عمدة القاري:13/3) اور دوسرے شخص جو حضرت عائشہ ؓ کے بھائی ہیں، ان کے متعلق محدث داودی کا خیال ہے کہ وہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر ؓ ہیں جبکہ بعض نے کہا ہے کہ وہ طفیل بن عبد اللہ ؓ ہیں جو حضرت عائشہ ؓ کے مادری بھائی ہیں، لیکن یہ اس لیے صحیح نہیں کہ روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ وہ حضرت عائشہ ؓ کا رضاعی بھائی تھا۔ امام نووی ؒ نے کہا ہے کہ وہ عبداللہ بن یزید ہے، جیسا کہ مسلم کی روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:2198 (947)) ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہویا کوئی دوسرا ہو۔ (فتح الباري:474/1) واللہ أعلم۔
2۔ اس حدیث سے عملی تعلیم کی قدرو قیمت کا پتہ چلتا ہے۔ کیونکہ عملی تعلیم جس قدر اطمینان بخش ہوتی ہے، قول اس درجے میں نہیں ہوتا۔ اسلاف میں تعلیم کا یہی طريقہ رائج تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں بھی یہ بات موجود تھی کہ جب کوئی شخص ان سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کرتا تو زبانی بتانے کے بجائے وہ وضو کر کے دکھا دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے غسل کے طریقے اور مقدار ماء کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے عملاً کر کے دکھا دیا۔ (فتح الباري:474/1)
3۔ اس حدیث کی آڑ میں منکرین حدیث اور رافضی بہت اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں عریانیت ہے، کیونکہ لوگوں کے سامنے غسل کرنے کا بیان ہے، لہٰذا احادیث کی صداقت مجروح ہے، حالانکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ہمارے اور عائشہ کے درمیان حجاب تھا، یعنی یہ غسل پس پردہ کیا گیا تھا۔ پھر سوال کرنے والے بھی محرم تھے۔ ایک آپ کا رضاعی بھانجا اور دوسرا رضاعی بھائی تھا چونکہ غسل کر کے دکھانا تھا، اس لیے سر کا حصہ پردے سے باہر تھا اور یہ دونوں محرم دیکھ رہتے تھے کہ غسل کی ابتدا کہاں سے ہوئی، لیکن جسم کے دیگر اعضاء جن کا چھپانا محرم سے بھی ضروری ہے وہ پردے میں تھے۔ (فتح الباري:474/1)