تشریح:
(1) اس حدیث کی تشریح گزر چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی جھوٹی قسم اٹھا کر کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنا چاہے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہی ہو گی۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی عذاب نہیں ہے۔ یہ آیت تمام جھوٹے معاملات پر فٹ ہوتی ہے۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہ مقصد ہے کہ راہن اور مرتہن میں جو مدعی ہو گا وہ ثبوت پیش کرے گا اور انکار کی صورت میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔ مدعی کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے قسم اٹھائے بلکہ اس کے ذمے ثبوت فراہم کرنا ہے۔ اگر مدعا علیہ کے پاس اس کے دعوے کو جھوٹا کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے تو وہ قسم اٹھائے گا کہ مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔ (2) گروی شدہ زمین میں اختلاف کی صورت یوں ہو گی کہ گروی رکھنے والا کہے: میں نے صرف زمین گروی رکھی ہے جبکہ گروی قبول کرنے والا دعویدار ہو کہ درخت بھی اس میں شامل ہیں۔ اب دعویدار کو اپنے دعوے کے لیے ثبوت دینا ہو گا یا گواہ پیش کرنے ہوں گے، بصورت دیگر گروی رکھنے والے کی بات قسم لے کر تسلیم کر لی جائے گی۔