تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اس سلسلے میں ذوالارحام اور عصبات، یعنی دور اور قریب کے رشتے داروں میں کوئی فرق نہیں۔ جس طرح دور کا رشتے دار ملکیت میں آ جانے کے بعد آزادی دیے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا اسی طرح قربی رشتے دار بھی صرف ملکیت میں آ جانے سے آزاد نہیں ہو جاتا۔ نبی اکرم ﷺ کا حضرت عباس اور عقیل سے فدیہ لینا اس کی واضح دلیل ہے۔ (2) کیونکہ حضرت عباس اور عقیل صرف قیدی بنے تھے ملکیت میں نہیں آئے تھے، اس لیے امام بخاری ؒ کا یہ مقصد نہیں کہ ملکیت سے فوراً آزادی حاصل نہیں ہوتی بلکہ مسلمان اور کافر کے بارے میں مطلق باب قائم کرنے اور پھر یہ روایات لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مشرک رشتے دار کا مالک بنے گا تو وہ ازخود آزاد نہیں ہو گا، تاہم اگر مسلمان رشتے دار کا مالک بنے گا تو وہ ازخود آزاد ہو جائے گا۔ (فتح الباري:208/5)